کالم

شہباز حکومت میں پرنٹ میڈیا دشمنی کے پیچھے کون؟

وہ کون ہے جو شہباز حکومت پر پرنٹ میڈیا دشمنی کا لیبل لگا رہا ؟
اخبارات کو ختم کرنے کی غیر دانشمندانہ سوچ رکھنے والوں سے چند سوالات؟
کیا ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا ملک کی 100فیصد آبادی کو معلومات پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ؟
کیایہ سچ نہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا اور ٹی وی شہرو قصبوں کے صرف25فیصد لوگ ہی دیکھتے ؟
کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی اخبارات 75فیصد آبادی کیلئے معلومات کابڑا ذریعہ ہیں
جہاں بجلی تک نہیں،4جی نہیں وہاں ڈیجیٹل و الیکٹرانک میڈیا کس کام کا؟ صرف PTVکی ہر جگہ کوریج ہے
کیا 4ہزار اخبارات کا گلہ گھونٹ کر 40نجی ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیاپہ نوازشات درست ؟
وفاقی حکومت نے کیسے 70سے 80فیصد میڈیا بجٹ نجی ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پرخرچ کرنا شروع کیا؟
اخبارات کو تباہ کرنے کی گھنائونی سازش آخر شہباز شریف جیسی میڈیا فرینڈلی حکومت میں کیوں ہورہی ؟
کیا4ہزار اخبارات و رسالے اس ظالمانہ پالیسی پر شہباز حکومت کیخلاف نہیں ہونگے؟
سوال یہ ہے کہ 4جی نیٹ ورک اور بجلی وٹی وی سہولت ملک کے کتنے حصے میں موجود ہے؟
کیاوفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب وزرات کی اخبار دشمن پالیسی سے بے خبر ہیں ؟لکھ لیں کل یہ بھی بڑا سکینڈل بن سکتا
ایسی کیا مجبوری ہے کہ میڈیا بجٹ کا 80فیصد الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو دینا شروع کردیا گیا؟
کوئی اگر سمجھتا ہے کہ پرنٹ میڈیا اندھا بہرا یا گونگا ہے تو وہ غلطی پہ ہے،اس پالیسی پہ طوفان آنے والاہے
وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر چند اخبارات کے سوا ملک بھر کے اخبارات سخت برہم ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف، مریم اورنگزیب اور سہیل علی خان اس ظالمانہ غیر منصفانہ اورصحافت کی نرسریوں پہ کاری وار کانوٹس لیں
کیا مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی 4ہزار اخبارات کے قتل عام کا ردعمل و مخالفت برداشت کرپائیگی؟
برادرم جاوید ملک کا بھی پرنٹ میڈیا کیخلاف سازش پراظہار تشویش ،احتجاج کاپلان
پرنٹ میڈیا،انکی ویب سائٹس کو وفاق و صوبے ازخود رجسٹرڈ کریں،جوCMLپہ ہے اسکو ڈیجیٹل شئیر دیاجائے
جہاں اخبارات اس سائیڈ پر کمزور ہیں وہاں PIDان کی تکنیکی معاونت کرے، جاوید ملک
پرنٹ میڈیا کا شیئر کم ازکم 40فیصد کیا جائے تاکہ میڈیا ہاوس چلیں،جمہوریت مضبوط ہو، جاوید ملک کی تجویز
شہباز شریف اگر جارہے ہیں تو انکو اس زیادتی کا ازالہ کرکے جانا چاہیے
کیا یہ ظلم نہیں کہ وعدہ کے باوجود اخبارات کے اشتہارات کے نرخ نہیں بڑھ سکے،کیا مریم اورنگزیب اس معاملہ کو دیکھیں گی؟

قلم کی جنگ
یہ جو قومی و ریجنل اور درمیانے درجے کے اخبارات کے دشمن بنے پھرتے ہیں کیا ان کو پتہ ہے کہ جس ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر وہ فدا ہیں اسکی عوام میں رسائی کہاں تک ہے ؟
کیا یہ اخبار دشمن نہیں جانتے کہ اخبارات ملک کے طول و عرض میں ہر اس جگہ پہنچتے(چاہے دوسرے یا تیسرے دن پہنچیں)جہاں پر انٹر نیٹ ، بجلی ، ٹی وی ریڈیو تک کا تصور بھی محال ہے!
کیا یہ پرنٹ میڈیا کے دشمن جانتے ہیں کہ ملک کے کتنے فیصد حصہ میں بجلی اور نیٹ کی سہولیات ہیں ؟اور وہ بھی G،5اورکیبل کے زریعے ؟
کیاان اخبارات کے دشمنوں کو پتہ نہیں کہ ٹی وی ،کیبل ، سیٹلائٹ ، ڈش ، تھری 4فائیو جی صرف چند بڑے شہروں و قصبوں میں ہی موجود ہیں، باقی کے 75فیصد ملک اور آبادی تک آگاہی و معلومات کا واحد زریعہ اخبارات ہیں۔
کیا ان اخبار کے دشمنوں کونہیں پتہ کہ ملک میں اخبار نویسی کی نرسریاں دور دراز علاقے میں موجود چھوٹے بڑے ریجنل اخبارات اور ہفت روزہ ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے مسائل سے 24گھنٹے انتظامیہ و حکومت کو آگاہ رکھتے ہیں۔
کیا یہ اخبار دشمن نہیں جانتے کہ صحافیوں اخبار فروشوں کا ایک منظم نیٹ ورک ہے جو دن رات عوام کو معلومات کی فراہمی کیلئے کوشاں رہتا ہے،جس سے ہزاروں خاندان وابستہ ہیں، ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہونیوالے ان اخبار دشمنوں کو یقینا وہ ڈیٹا دیکھنا چاہیے جس میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی لوکیشن ہوتی ہے،تاکہ ان کو پتہ چلے کہ آپ نے تو ان میڈیم کے زریعے ملک کی 25فیصد آبادی کو ہی آگاہی دی باقی 75فیصد تک تو آپ پہنچے ہی نہیں
ان پرنٹ میڈیا کے دشمنوں کو شاید پتہ نہیں کہ امریکہ ،یورپ برطانیہ، روس اور انڈیا میں آج بھی اخبارات ہی ٹھوس،حقائق اورمستند خبروں کا زریعہ سمجھے ہیں۔ اس سب کے باوجود پھر پاکستان میں پرنٹ میڈیا سے گزشتہ 4 سالوں سے بار بار دشمنی کیوں؟
پرنٹ میڈیا کے دشمن شاید نہیں جانتے کہ واشنگٹن پوسٹ ، ٹائمز آف انڈیا ، نیویارک ٹائمز،ٹیلی گراف جن میں آپ خبریں چھپوانے کو اعزاز سمجھتے ہو وہ بھی اخبارات ہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی پشت پر ریاست رہی اور وہ پھلے پھولے اور آپ نے اخبارات دشمنی میں انکی تباہی کی بنیاد ہی رکھی
ان اخبار دشمنوں کو 9 مئی ،25 مئی اور 11 اپریل بھول گیا جب اسی ڈیجیٹل میڈیا نے ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پرنٹ میڈیا نے انکو محفوظ رستہ دیکر اس سے نکالا۔
قارئین کرام!
پاکستان میں پرنٹ میڈیا انڈسٹری کو ایک عرصہ سے ٹارگٹ کرکے ختم کرنے کی منظم سازش کی جارہی ہے، اور اس کے مقابل مادر پدر آزاد ڈیجیٹل میڈیا کو پروان چڑھایاجارہا ہے، یہ پالیسی فواد چوہدری نے اپنے پہلے دور حکومت میں متعارف کرائی، لیکن شبلی فراز کے بعد جب وہ دوبارہ وزیر اطلاعات بن کر آئے تو انہوں نے اخبارات کی اہمیت کو سمجھا اور سوشل میڈیا پر انحصار ختم کرنے کی طرف گئے، لیکن بدقسمتی سے ن لیگ جو ہمیشہ سے میڈیا فرینڈ لی سمجھی جاتی رہی،جس نے مریم نواز صاحبہ کے دور میں میڈیا کو پاوں پہ کھڑا کیا، اس نے گزشتہ ایک سال اپریل 2022سے جولائی 2023تک پرنٹ میڈیا کو ٹارگٹ بناکر تباہ کرکے رکھ دیاہے،کے پی کے ،گلگت بلتستان،بلوچستان ،پنجاب اور سندھ کے دوسرے درجے کی اخبارات کی آپ کہانیاں سنیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجائیں کہ اس ایک سال میں انکے مالکان کنگال ہوگئے، ہوا یہ کہ ن لیگ کی موجودہ حکومت نے میڈیابجٹ کا 70،80 فیصد ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر خرچ کرناشروع کردیاگیا،ظلم یہ کیا گیا کہ گزشتہ 8دس ماہ سے پرنٹ میڈیا کیلئے 5سے 10 فیصد بجٹ رہ گیا جبکہ 60سے 80فیصد بجٹ الیکٹرانک میڈیا اورڈیجیٹل میڈیا پر خرچ کرنا شروع کردیا، اس کے پیچھے کیا مجبوری تھی؟ یہ 10اگست 2023 کے بعد لکھوں گا۔
اس پر سوال یہ ہے کہ حکومت پرنٹ میڈیا کا بجٹ بغیر کسی قانون سازی کیسے کم کرسکتی ہے ؟ کیا اس پر AGPR آڈٹ اعتراض نہیں لگا ئے گا؟اس پہ زیادہ افسوسناک کام یہ ہوا کہ جو پی آئی ڈی اخبارات کی ریگولیٹرتھی اس نے اس پہ اپنی مثبت ان پٹ دی نہ ہی وزرات کو اس ظالمانہ پالیسی سے روکنے میں اپنا کردار ادا کیا، اس پر اے پی این ایس اور سی پی این ای بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کو چلانے والوں کے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز ہیں، ان کی تو پانچوں گھی میں ہیں اور سرکڑاہی میں !لیکن دوسری طرف ریجنل اخبارات ، صوبوں سے شائع ہونیوالے اخبارات تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں۔
یقیناپرنٹ میڈیا سے اس زیادتی یا اس کیخلاف دشمنی پہ مبنی پالیسی سے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بے خبر ہیں، ان کی ناک کے نیچے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اخبارات کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کو وزارت اطلاعات و نشریات اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے پوچھنا چاہیے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ آپ 50سے 60 فیصد بجٹ الیکٹرانک میڈیا کو دے رہے ہیں؟ اور ڈیجیٹل میڈیا کو 20فیصد !یہ سب کس کھاتے میں دیا جارہا؟اخبارات کے لئے 5سے10 فیصد کیوں؟کیا اس پہ وزیراعظم ہاوس کا کوئی سرکلر ہے؟ قائمہ کیمٹیوں کی کوئی ایڈوائس ہے یا سب فیصلے 2،4 لوگ ملکر کررہے ہیں ؟
میری اس معاملہ پر بہت سے دوستوں سے بات ہوئی کہ اس غیر منصفانہ تقسیم پر3،4 قومی اخبارات کو چھوڑ کر ہر جگہ بہت غم وغصہ ہے،اس ناانصافی پہ اخبارات خاموش نہں رہیں گے، وہ اپنا شیئر کسی صورت ڈیجیٹل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کو نہیں جانے دینگے، میری اس پر وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور سیکرٹری اطلاعات سہیل علی خان کو پرنٹ میڈیا کیخلاف اس سازش کو ناکام بنانے کا حکم دیں اور برابری کی بنیاد پہ تمام سٹیک ہولڈرز کو شیئر دلوائیں۔
ڈیجیٹل میڈیا کو اگر میڈیا دینا ہے تو پہلاحق اخبارات کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ہے اگر ریجنل اور قومی اخبارات ورسائل جن کی تعداد 4ہزار سے زائد بنتی ہے کی ڈیجیٹل میڈیا سائیڈ کو حکومت FACILITY دے،یہ بزنس ایسے اخبارات کی ویب سائٹس کو جانا چاہیے جو CML پر ہوں۔ وزارت اطلاعات و نشریات کیلئے کسی بھی غیر رجسٹرڈ اورCML کے بغیر ویب سائٹس کو بزنس نہیں دینا چاہیئے ؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے کیونکہ یہ لاکھوں خاندانوں کی بقا کا معاملہ ہے ،جس میں اخبار نویس ، سب ایڈیٹرز پریس سیکشنز، اخبار فروش پرنٹ میٹریل انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں خاندان شامل ہیں،
اگر یہ معامل حل نہ ہوا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وفاقی حکومت 4ہزار سے زائد اخبارات وجرائد کو اپنے خلاف کرلے گی ۔اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ یہاں پر رکے گا نہیں، 80پچاسی فیصد الیکٹرانک میڈیا و ڈیجیٹل میڈیا کو آئوٹ آف وے دینے کے پیچھے وجوہات جاننے تک جائیگا، اور اس پر پرنٹ میڈیا بہت گند کریگا،جس کا نقصان بہرحال کسی کو تو ہونا ہے،یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا پی آئی ڈی کو اخبارات کا تحفظ کرنا چاہیے یا ان کے خاتمے میں ہر اول دستے کا کردار؟
پیارے پڑھنے والو!
اخبار دشمن پالیسی کے حوالے سے گزشتہ روز میرے پاس نیشنل پریس کلب میں صدارت کا الیکشن لڑنے والے برادر جاوید ملک آئے، انہوں نے پریشان کن انداز میں مجھے کہا کہ آپ کو حکومت پڑھتی ہے آپ اس نازک اور سنگین مسئلے پرقلم اٹھائیں، انہوں نے کچھ نکات ڈسکس کئے جو حاضر خدمت ہیں!
وفاق کی الیکٹرانک میڈیا پر نواز شات کی روایت پر صوبے بھی چل پڑے،جس سے چھوٹے میڈیا گروپ بند ہورہے
جب پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک پر گیا تو اخبارات کے مالکان کی کم تعداد نے ٹی وی چینل کھولے، اب نان پروفیشنل ، غیر صحافی ٹی وی چینل چلارہے، جو حکومت کو ہمیشہ بلیک میل کرتے،
الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب ڈیجیٹیلائزیشن ہورہی تو پھر انہی غیر صحافیوں کو فیور کیا جارہا،حکومت جان بوجھ کر پروفیشنل صحافیوں کو سپورٹ نہیں کررہی
ویب سائٹس پر ڈیجیٹل شیئر کا پہلا حق اخبارات کا ہے کیونکہ اکثر ٹی وی چینلز کے اخبارات ہیں،وہ 3 جگہوں سے میڈیا اٹھا رہے ،اخبارات کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ ہیں،
اخبارات اور ان کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمزکو حکومت ترجیحی بنیادوں پر ان کرے جہاں ٹریننگ کی ضرورت ہے وہاں اخبارات کو سہولیات دے
اخبارات کا ہر صورت میں 40فیصد شئیر کا ریشو مقرر ہونی چاہیے
ایک طرف 4ہزار اخبارات ہیں اور دوسری طرف صرف 30ٹی وی چینلز، اخبارات کے ملازمین ،ان سے وابستہ افراد کی تعداد ٹی وی چینلز سے 1000گنا زیادہ ہے
اخبارات کی انڈسٹری دم توڑ گئی تو ملک میں پروفیشنل ازم دم توڑ جائیگا
مجھے امید ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور مریم اورنگزیب صاحبہ اس تلخ کالم پہ خندہ پیشانی سے کام لیتے ہوئے ایکشن لیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button