لندن: سائنسدانوں نے ایک اہم پیشرفت میں تجربہ گاہ میں پرورش کئے گئے دماغی خلیات کو اس قابل کیا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر ٹیبل ٹینس کی طرح پونگ جیسا کھیل کھیل سکیں جسے بطورِ خاص 1970 میں بنایا گیا تھا۔ ماہرین نے اسے خرددماغ یا مائیکروبرین کہا ہے اور بتایا ہے کہ نہ صرف یہ اپنی اطراف کو محسوس کرتا ہے بلکہ اطراف پرردِ عمل بھی دکھاتا ہے۔ یہ تحقیق جرنل نیورون میں شائع ہوئی ہے۔ یہ کامیاب تجربہ کورٹیکل لیبس نامی ایک کمپنی سیوابستہ ڈاکٹر بریٹ کاگن اور ان کے ساتھیوں نے کیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ایک طشتری میں دماغ آگایا ہے جو اپنی اطراف کا احساس کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر برٹ کیمطابق یہ ایک بہترین زندہ دماغی ماڈل ے جو بیرونی ذرائع سے معلومات لیتا ہے، اسے پروسیس کرتا ہے اور فوری طور پر اپناردِ عمل بھی دیتا ہے۔ دماغی خلیات پر مبنی خرددماغ سب سے پہلے 2013 میں بنائے گئے۔ سب سے پہلے مائیکروسیفیلی نامی ایک جینیاتی مرض سمجھنے کے لیے انہیں ڈیزائن کیا تھا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دماغی خلیات کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ کوئی کام کرسکیں اور اس تجربے میں لاکھوں خلیات نے پنگ پانگ ویڈیو گیم کھیلا ہے۔ سائنسدانوں نے انسانی خلیاتِ ساق سے دماغی خلیات بنائے گئے ہیں اور اسطرح ان کی تعداد 8 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پھر اس ننھے دماغ کو برقیروں (الیکٹروڈ) سے جوڑا گیا ۔ دماغ پانچ منٹ کی تربیت سے یہ جان گیا کہ کس طرف گیند موجود ہے اور کس طرح اسے پیڈل سے دورپھینکنا ہے۔ دماغ نے پانچ منٹ کی تربیت کے بعد گیم کھیلنا شروع کردیا تاہم اس نے کئی مرتبہ گیند کو چھوڑدیا۔ ماہرین کے مطابق اس دماغ کو شعور نہیں اور وہ انسانوں کی طرح گیم نہیں کھیلتا۔ ڈاکٹر بریٹ کے مطابق اس ماڈل کو دماغی امراض مثلا الزائیمر کے علاج اور تحقیق میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محض چند خلیات اور بافتوں کی بجائے ایک دماغ اس ضمن میں بہتر ثابت ہوسکتا ہے اور اب تک اس پر تحقیق نہیں کی گئی تھی۔ دوسری جانب مصنوعی ذہانت کے پروگرام اور الگورتھم کے مقابلے میں حقیقی دماغی خلیات کے چھوٹے چھوٹے ماڈل بہت مثر ثابت ہہیں۔
0 0 1 minute read



