لندن: کرہٴ ارض کے خدشات کی فہرست میں کلائمیٹ چینج یعنی آب و ہوا میں تبدیلی سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اب آب و ہوا میں تبدیلی سے دنیا بھر کی مسافر پروازیں پرسکون کی بجائے تیزی سے ہیجان کی شکار ہورہی ہیں اور طیاروں کے ہچکولوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس سال 10 مارچ کو ترکی سے نیویارک جانے والا ایک طیارہ جھٹکے سے نیچے کی جانب گرا اور اندر بیٹھے مسافر اس تلاطم سے زخمی بھی ہوئے اور اسے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔
شمالی بحرِ اوقیانوس کے عین اوپر کے آسمانوں پر ایسے واقعات تیزی سے رونما ہورہے ہیں کیونکہ وہاں ہواؤں کی شدت اور سمت میں شدت اور بے قاعدگی دیکھی گئی ہے۔
اگر مختلف بلندیوں پر ہوا کی رفتار اور دباؤ میں بہت فرق ہوتو اس سے طیاروں کی پرواز ہموار نہیں رہتی اور مسافر شدید مضطرب ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ہفت روزہ سائنسی جرنل نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے مطابق، شمالی اوقیانوس کی بلندی پر موجود ہوا کے بہاؤ کے خاص حصوں یعنی جیٹ اسٹریم کا مزاج بگڑ چکا ہے۔
واضح رہے کہ فضا کا یہ حصہ فضائی پروازوں کے لیے مصروف ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی آسمانی خطے میں بالخصوص موسمِ سرما میں طیاروں کو پولر جیٹ اسٹریم سے گزرنا پڑتا ہے۔ روزانہ یہاں سے تین ہزار پروازیں گزرتی ہیں اور اگر ہوا کے دباؤ میں معمولی تبدیلی بھی ہوجائے تو اس سے طیاروں کی پرواز شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ اب یہ عمل واقعی شروع ہوچکا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خطِ استوا (ایکویٹر) اور قطبین یعنی پول کے درمیان چونکہ درجہ حرارت کا فرق ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پولر جیٹ اسٹریم وجود میں آتی ہے۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ خطِ استوا اور قطبین کے درمیان اگر درجہ حرارت کا فرق بڑھے گا تو پولر جیٹ اسٹریم اتنی ہی شدید ہوتی جائے گی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے پروازیں تیزی سے متاثر ہوں گی۔
برطانیہ میں واقع یونیورسٹی آف ریڈنگ سے وابستہ سائنسدانوں نے یہ شماریاتی تحقیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں مقامات پر درجہ حرارت میں تبدیلی سے نہ صرف جیٹ اسٹریم بدمزاج ہورہی ہے بلکہ اس کےنیچے سمندری طوفان بھی بن رہے ہیں۔ کیونکہ زمین پر ہی نہیں بلکہ فضا کی بلندیوں پر بھی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے۔