بنی گالہ کا گھر ریگولرائز ہوگیا تو غریب کا گھر کیوں نہیں ؟
سی ڈی اے اگر وزیر اعظم کو رعایت دے سکتا ہے تو عام شہریوں کو کیوں نہیں ؟
اسلام آباد میں CDAنے غریب کی کٹیا کی بجلی ،گیس کئی سال سے بند کررکھی ہے
گھر بن جاتے ہیں ، میٹر نہیں لگتے ، کیا یہ عوام کیساتھ ظلم وزیادتی نہیں ؟
وزیر اعظم کو رستہ دینا ، شہریوں کو جکڑ لینا ، کیا یہ دو نہیں ایک پاکستان ہے ؟
ہاؤسنگ سکیمیں : آبادیاں سی ڈی اے کی نالائقی کے ہاتھوں برباد ہوگئیں،
کیا نئے ماسٹر پلان میں پچھلی ساری غلطیوں کو ریگولرائز نہیں کیا جاسکتا ؟
اسلام آباد کے نمائندے بھی بجلی گیس کے سنگین مسئلے پر ناکام ہوگئے ، کابینہ بھی کچھ نہ کرسکی
کیا عدالت عظمیٰ یا اسلام آباد ہائیکورت اس انسانی مسئلہ کو حل کرینگی؟
عقیل احمد ترین
اعلی عدلیہ کی ہدایات کے برعکس اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کے نام پر وزیر اعظم عمران خان کا بنی گالہ میں موجود کئی ایکٹر پر گھر کو 12لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کے بعد سی ڈی اے نے منظور کرلیا ، اس گھر کی تعمیر پر ماضی میں بہت شور شرابا ہوا ، اس گھر کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کا سورس بھی پوچھا گیا اور پھر اس کی زون ٹو میں خلاف ضابطہ تعمیر پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لے لیا اور گزشتہ روز سی ڈی اے نے بالاخر اس گھر کی تعمیر کو زوننگ ریگولیشن کے خلاف ورزی کے باوجود چند لاکھ روپے میں نہ صرف قانونی بنادیا بلکہ اس کا نقشہ بھی منظور کرلیا،اس پہ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم نے اپنے دور حکومت میں اپنے لئے یہ فائدہ نہیں لئا؟ کیا یہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کے زمرے میں نہیں آتا؟
اب ذرا چلتے ہیں ، بنی گالہ اور باقی کے اسلام آباد کے حوالے سے کہ کیا یہاں ایک نہیں دو پاکستان نہیں ؟!
اسلام آباد میں سی ڈی اے اور راولپنڈی میں آر ڈی اے دو ایسے محکمے ہیں جو غریب کی کٹیا میں روشنی پانی اور گیس دینے کیلئے پابندیاں لگائے بیٹھے ہیں ، آپ دیکھیں مل پور ”جگیوٹ” ترلائی کلاں، بہارہ کہو ، سورائن ، ترنول ، سنگجانی ، شاہ اللہ دتہ اور دوسرے مقامات جہاں پر سی ڈی اے کی عملداری تک نہیں ، اراضی کی خریداری تک نہیں وہاں اس محکمے نے عام شہریوں کے گھروں کیلئے بجلی گیس بند کر رکھی ہے ، گھر بن جاتے ہیں لیکن وہاں پربجلی اور گیس کے میٹرز نہیں لگنے دیئے جاتے ، کاش اس ملک کا ہر شخص یا کم از کم اسلام آباد میں رہنے والا ہرغریب کا نام عمران خان ہوتا تو اس کی زندگی بھر کی جمع پونچی سے تیار ہونیوالے گھر بھی ریگولرائز کردیئے جاتے ، وہاں پر سڑکیں کارپٹ اور گلیاں پختہ کردی جاتی لیکن ہر شخص کی قسمت کپتان کی سی کہاں ؟
میرا یہ سوال ہے کہ وزیر اعظم کے غیر قانونی گھر کو اگر جرمانہ کی ادائیگی کے ساتھ ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو پھر ملک خداداد پاکستان کے شہریوں کے گھروں کو کیوں نہیں کیا جاسکتاَ؟
اسلام آباد میں بجلی اور گیس کے میٹرز لگانا ، سرکاری سکول میں بچوں کو داخل کرانا یا سرکاری نوکری کے حصول سے بھی مشکل بنادیا گیا ہے ۔
شہریوں نے ساری زندگی پاکستان کی خدمت کرکے جمع پونجی کو اکھٹا کیا اور پھر جب گھر بنایا تو پتہ چلا کہ سی ڈی اے کے NOCکے بغیر ان کی سوسائٹی ، ان کا محلہ ” تورا بورا” جیسا درجہ رکھتا ہے ! اسلام آباد کی تمام ہاؤسنگ سکیموں ،تمام مضافات میں آج بجلی اور گیس کے میٹرز بند ہیں اور اسکی وجہ رولز ریگولیشن ہیں ! تو کیا سی ڈی اے اگر وزیر اعظم کو نرمی دے سکتی ہے تو عام شہریوں کو نہیں ؟ کچھ دن قبل سنا تھا کہ اسلام آباد میں کابینہ بجلی ،گیس سے پاپندی اٹھا رہی ہے لیکن وہ بھی ہوا ہوگئی اسلام آباد کے نمائندے راجہ خرم نواز،اسد عمر ،سرور خان اس معاملہ پہ ناکام ہوگئے ، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ اس اہم ترین انسانی مسئلہ کو وزیر اعظم کے کیس کی طرح حل نہیں کرسکتی؟