قلم کوف / نواب(ڈاکٹر) غوث بخش خان باروزئی
سابق نگران وزیر اعلی بلوچستان
barozai_geebee@hotmail.com
پچھلے کئی ماہ سے سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر لکھنا چاہیے مگربوجوہ نہیں لکھ پایا۔ مچھ میں ہونے والے حالیہ اندوہناک او ر المناک واقعہ نے اس موضوع پر لکھنے کو لازم کردیا۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی بلوچستان میں ایک سیاسی مسئلہ بھی وجود میں آگیاوہ یہ کہ برٹش بلوچستان (نصیر آباد،ڈیرہ بگٹی،مری،سبی سمیت پشتون علاقے)،لسبیلہ،مکران اور خاران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا تھا۔ریاست قلات نے 1948ءمیں الحاق کا اعلان کیا جس کو بلوچ قوم پرست طاقت کے بل بوتے پر زبردستی پاکستان میں شمولیت گردانتے ہیں۔یہ ایک سیاسی تنازعہ وجود میں آگیا۔اس پر پہلی شورش ہوئی لوگ پہاڑوں پر جانے کے علاوہ افغانستان بھی جلاوطن ہوئے۔معاملات کچھ عرصے کے بعد ٹھیک ہوئے۔دوسری شورش 1958ءمیں ، تیسری 1962ءمیں ،چوتھی1973ءاورموجودہ شورش 2003ءسے اب تک جاری ہے۔ان تمام شورشوں کی تفصیل کسی اور کالم کیلئے چھوڑ کران تمام سے کس طرح نمٹا گیا اس پر بات کروں گا۔
جب بھی شورش ہوئی اس کا انداز گوریلا جنگ کا سا رہا۔ علیحدگی پسند پہاڑوں سے جدوجہد کا آغاز کرتے اور سکیورٹی ادارے ان کے ساتھ نمٹنے کیلئے وہیں پر ان سے مقابلہ کرتے۔ کامیابی اور ناکامی کی خبروں کے درمیان بلوچ رہنماﺅں سے ریاست کی سیاسی بات چیت بھی جاری رہتی جو کسی پیکیج پر منتج ہوتی ۔ چوتھی شورش میں شہری علاقوں میں بھی وارداتیں شروع ہوئیں۔اس شورش میں جو کہ-72 1973ءکی شورش کا انداز کچھ مختلف ہے ۔ نواب اکبر بگٹی مرحوم نیپ حکومت میں اپنی امیدوار کو خاتون ممبر منتخب کرانے میں ناکامی اور گورنر بلوچستان نہ بنائے جانے پر نارا ض تھے۔وہ ملک چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ عراق کے سفارتخانے سے اسلحہ برآمدہونے ،بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں جاموٹ اور مینگل قبائل میں کشیدگی کی وجہ سے حالات بگڑتے گئے۔ نواب بگٹی مرحوم ملک واپس آگئے اور وفاقی حکومت کے ساتھ مل گئے۔ عراقی سفارتخانے سے جو اسلحہ نکلا وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو کہ بلوچستان میں موجود ہے۔نواب اکبر بگٹی مرحوم نے کہا کہ اگر مجھے گورنر بنایا جائے تو میں معاملات ٹھیک کردوں گا،ان شاءاللہ اس کی تفصیل بھی آئندہ کسی اور تحریر میں قلم بند کروں گا ۔بہرحال نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت توڑ دی گئی اور نواب اکبر بگٹی گورنر بلوچستان مقرر ہوئے۔ان کے دور میں بھرپور آپریشن شروع ہوا۔ وہ 31دسمبر1973ءکو مستعفی ہوئے۔ یکم جنوری 1974ءکو خان احمد یار خان نے گورنر کا حلف اٹھالیا۔شورش اس دوران جاری رہی لیکن شدت زیادہ نہیں تھی۔ بات کیونکہ سرنڈر(ہتھیارڈالنے) کی ہے تو باقی تفصیل میں نہیں جاتے۔
ہتھیار ڈالنے کا رواج شروع کی شورشوں سے ہی تھا۔ اکا دکا یہ چلتا رہا۔1975ءکے دسمبر میں سردارعطاءاللہ خان مینگل کے بڑے صاحبزادے میرمنیر احمد مینگل نے گورنر کے سامنے اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سرنڈر کیا۔ میر سفرخان زرکزئی بھی پہاڑ سے اترنا چاہتے تھے لیکن ان کا اعتماد وزیراعلیٰ جام غلام قادر اور کسی پر نہیں تھا۔ان کو میرے والد پر حد درجہ اعتماد تھا۔وہ اس وقت 1975ءدسمبر میں جام صاحب کی حکومت بد عنوانی اور نااہلی کی بنیاد پر توڑے جانے کے بعد ایڈوائزری کونسل کے ممبربنے بھٹو صاحب کے اصرار پر، اسپیکر تو تھے۔ انہوں نے گورنر سے بارہا کہا لیکن کیا وجہ تھی کہ اس پر سست روی رہی اور وہ پہاڑ میں ہی اپنے ایک ساتھی کے ہاتھوں مار دیے گئے۔مارشل لاءکے دنوں میں بھی سرنڈر کرنے کے واقعات ہوتے رہے جبکہ شورش برائے نام ہی رہ گئی تھی۔ہتھیار ڈالنا بھی ایک گنگا ہے جس کے کنارے مزے لینے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سیاسی حکمت عملی ناقص اور انتظامی مشینری فرسودہ ہے۔ مسئلے کا ادراک کئے بغیر عارضی اورناپائیدارحل نہ صرف آئندہ در پیش آنے والے ایسے ہی حالات کو مزید گھمبیر اور تشویشناک بنا دےتے ہیں۔
سرنڈر کی پالیسی کا سب سے پہلا اور بڑا فلسفہ یہ ہے کہ بےروزگاری اور مفلسی کی وجہ سے نوجوان اس راہ پر چل پڑتے ہیں۔اس پیکیج کے تحت ہر شورش کو ختم اسی طرز پر کیا گیا اور اس کا فائدہ بڑے لوگوں کو ملتا رہا ۔بیروزگاری اور غربت کے خاتمے میںکوئی خاطرخواہ فرق نظر نہیں آیا۔ اگر معاملات کو صحیح اور سیاسی طور پر حل کرنے کی نیک نیتی سے کوششیں ہوتیں تو کچھ بہتر ہو سکتا تھا۔پچھلی سرنڈرپالیسیوں کے تسلسل میں اب کی بار کچھ زیادہ رقم سے کشش بڑھ گئی ۔ پانچ سے پندرہ لاکھ فی سرنڈر، جیسا کہ سرکاری زبان میں ان کو کہا جاتا ہے ، اور ان کا اسلحہ بھی قانونی قرار دیے جانا بہت بڑا لیکن تباہ کن فیصلہ تھا۔پھر جنہوں نے جتنے لوگ سرنڈرکروائے اتنا زیادہ سیاسی اورمالی فائدہ اٹھایا۔سرنڈر کرنے والوں کو جتنی رقم ملی اس سے انہوں نے باہر نکلتے ہی موٹر سائیکل125cc) ( خریدے کیونکہ یہ وارداتوں میںکامےابی سے استعمال ہوتے ہیں۔ قانونی کلاشنکوف،موٹر سائیکل کچھ رقم اور وسیع تعلقات نے ان کو مزید طاقتور کردیا۔کسی کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر اس "سرنڈر” پالیسی نے ان کا” سر”نظام میں اندرکردیا۔پھربہت سے ہتھیار پھینکنے والے اپنی حکمت عملی کے تحت اہم شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہوگئے۔جس کی وجہ سے کئی واقعات میں ان کے ملوث ہونے کی شکایات زبان زد عام ہیں۔جس طرح اونٹ کے خیمے میں سر ڈالنے کی صورت میں مالک کو خیمے سے محروم ہونے کی حکایت موجودہے۔ ان سرنڈر کرنے والوں کا بھی نظام میں سر اندر ہے ۔ مچھ کے واقعہ کے بعد اس پر سوچ بچار کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ورنہ اب کے حالات قابو میں آ بھی گئے تو بھی خدانخواستہ اگلی بارمعاملات مزید گھمبیر ہوں گے۔