اہم خبر

آٹا بحران ۔ پونچھ کا مسئلہ کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں غائب۔۔

سچ تو یہ ہے

بشیر سدوزئی

عمران خان کی ایمانداری اور نیا پاکستان مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو مہنگا پڑھ رہا ہے ۔ اب نوجوان بھی کہنے لگے ہیں کہ مدینہ کی ریاست میں اتنی افراتفری اور مہنگائی تو نہ تھی جتنی نئے پاکستان میں پھیل رہی ہے ۔ پہلے سے ہی چھ کروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، کرونا وائرس نے تقریبا ایک سال سے زمانے کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ کاروبار بند اور بے روزگاری اوج کمال پر ہے، لوگ وائرس سے مر رہے ہیں ۔جن کو وائرس نہیں لگا وہ خوف وائرس سے نیم مردہ ہو چکے ۔اوپر سے مہنگائی ہے کہ خان صاحب کے قابو سے باہرنکل رہی ہے۔ آمدنی میں کمی اور اخرجات میں اضافہ زندگی کا توازن بگھڑنے سے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ سب چیزوں کی مہنگائی انسان برداشت کر سکتا ہے مگر پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا ہوتے کیسے دیکھے وہ بھی اس وقت جب اس کے بچے بھوک سے ناڈال ہوں ۔ اب ایمان کی یہ کیفیت تو نہیں کہ ماں ہنڈیا میں پتھر یا درخت کے پتے ڈال کر بھوکے بچوں کو بہلانے لگے، تو حکم خدا سے وہ خوراک بن جائے ۔ آج تو پکے سچے مسلمان اور عالم باعمل کو بھی بازار سے کچھ خرید کر لانا ہو گا تب پکے گا اور خریدنے کے لیے وسائل چاہئے جو کم ہو رہے ہیں ۔ خان صاحب کی ٹائیگر فورس بھی کئی غائب ہو گئی ۔اعلان کے وقت سنا تھا یا پڑھا تھا کہ ٹائیگر فورس علاقوں میں سروے کرئے گی کہ کون مستحق ہے ۔اس کو ریاست مدد کرئے گی۔ لگتا ہے ٹائیگر فورس نے ابھی تک کام ہی شروع نہیں کیا. مہنگائی اور بے روزگاری نے کام شروع کر دیا۔ غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر غربت کی لکیر سے نیچے والوں کی تعداد 50 فیصد آبادی سے زائد ہو گئی تو پی ڈی ایم کا یہ نعرہ مقبول عام ہو گا کہ نیا نہیں پرانہ پاکستان چاہیے ۔پرانے پاکستان میں عوام کو یہ فائدہ تو تھا کہ لوٹ کھسوٹ کا کچھ تناسب نیچے والوں کو بھی ملتا تھا ۔صاحب سے چپڑاسی تک ہر کوئی شام کو کچھ نہ کچھ گھر لے کر جاتا تھا ۔نئے پاکستان میں تو سب کچھ بند ہو گیا ۔لوٹ کھسوٹ کے کھلے بازار میں تو نظام چل سکتا ہے۔ ایمانداری کے بند بازار میں کاروبار زندگی کیسے چلے گا ؟۔خان صاحب یہ غور طلب بات ہے ۔ اس سے قبل کہ یہ نوبت آ جائے کہ لوگ جان بچانے کے لیے اسلام آباد کی طرف دوڑیں، سنا ہے وہاں کے جنگلات میں سور کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مدینہ کے والی کو کتوں کی نہیں انسانوں کی فکر ہی کرنی چاہیے ۔ یہاں دجلہ تو نہیں مگر ہر ندی نالے کو دجلہ ہی سمجھ لیا جائے ۔ہر ایک کے کنارے پر انسان بیٹھا ہے جو افلاس کی وجہ سے قریب المرگ ہے ۔مجھے یہ تو سمجھ نہیں کہ کیا کیا جائے ۔ بس اتنا معلوم ہے کہ صورت حال بہت زیادہ خراب ہو رہی ہے ایک لاکھ سے زائد آمدنی والے کو بھی گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں خاص طور پر اپوزیشن اس افراتفری کو ہوا دے رہی ہے عوام کی رہنمائی نہیں کر رہی ۔شاید وہ سمجھتی ہے کہ عمران یا پی ٹی آئی کی ناکامی ان کی کامیابی ہے ۔ وہ اپنی کامیابی کے لیے ضرور سوچیں بھی اور کام بھی کریں لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سوچنا چاہیے کہ ہائبرڈ جنگ، اور ففتھ جنریشن وار فئیر کے زمانے میں حکومت اور مال بچانے سے زیادہ ملک کو مضبوط کرنا اور عوام کو سہولت دینا اہم ہے ۔ اس افراتفری کے ماحول میں سیاسی جماعتوں کی بے حسی اور خاموشی یا ایک دوسرے کو نیچے دیکھانے کی سیاست سے ایسا نہ ہو کہ ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل کر ایکشن کمیٹی کے ہاتھ میں چلا جائے ۔ سیاسی جماعتیں منہ دیکھتی رہ جائیں اور عوام رخ تبدیل کر لیں پھر فارق عبداللہ کی طرح ایک لاکھ ووٹ کے حلقہ سے پانچ سو ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں جانے والوں کی کیا وقت رہ جائے گی ۔ خاص طور پر آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں گزشتہ کئی ماہ سے صورت حال ایسی ہی بن رہی ہے کہ عوامی مسائل پر سیاسی پارٹیاں اور قائدین مکمل خاموش اور غائب ہیں۔ ہر گاوں اور شہر میں ایکشن کمیٹیاں بن رہی ہیں جو عوام کے مسائل کو اجاگر کر تو رہی ہیں لیکن کچھ عناصر عوامی جذبات کا فائدہ اٹھا کر کچھ نعرے اور تقریریں کر رہے ہیں جو مناسب نہیں۔ لیکن جو لوگ ایسا چاتے ہیں ان کے لیے یہ مناسب وقت ہے۔ راستہ صاف اور لوگ جذبات میں ہیں تو کیوں نہ جلتی کو ہوا دیں ۔25 اکتوبر اور 13 جنوری عوامی مسائل پر عوامی احتجاج کی قیادت کسی سیاسی پارٹی نے نہیں کی بلکہ ایکشن کمیٹیاں کر رہی تھی۔ ایکشن کمیٹیوں کی قیادت اور کی سپیکر کون لوگ تھے اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا ۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث و مباحثہ ہی کافی ہے ۔ ان احتجاجی مظاہروں میں مقررین کیا گفتگو اور الفاظ کا کیا چناو کرتے ہیں توجہ طلب ہے ۔ انجمن تاجران ان کے ساتھ شامل تھی ۔ انجمن تاجران کا عوامی مسائل سے کیا تعلق لیکن خالی جگہ کوئی تو پر کرے گا ۔ گویا ایکشن کمیٹی کی درخواست پر انجمن تاجران نے ان کا ساتھ دیا تو آٹے بحران پر پاکستان کے 70 سے زائد اضلاع میں مہنگائی کے خلاف صرف پونچھ ڈویژن میں ہی ہڑتال، دھرنا اور پولیس مقابلہ کیوں؟ ۔ کیا دوسرے علاقوں اور شہروں کے عوام اس مہنگائی سے متاثر نہیں۔ مہنگائی کا طوفان صرف پونچھ میں آیا ہے جہاں اس سطح کی بے قراری پائی جاتی ہے۔ کہ احتجاجیوں پر آنسوؤں گیس اور پولیس پر پتھروں سے سرکاری اہلکاروں سمیت مظاہرین زخمی ہوئے ۔ شکر ہے دونوں طرف سے کوئی اموات نہیں ہوئی ورنہ دور درشن سے نکلنے والی خبر دنیا کے سات سو چینل پر چل رہی ہوتی جو بھارت نے ہائبرڈ جنگ کے لیے قائم کر رکھے ہیں ۔ یہ ویڈیو اور خبر پاکستانی چینل سے بہت پہلے دوردرشن کو پہنچتی ہے۔ 25 اکتوبر کو بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ راولاکوٹ یا پونچھ کے کسی شہر میں دور درشن کا بیورو آفیس ہے جو اس کو ویڈیو کے ساتھ فورا خبر مل جاتی ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے۔ اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو دیکھنا پڑھے گا کہ وہ کیا مسئلہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر دونوں جانب سے بحث جاری ہے، دھرنے اور احتجاج کے کوئی خلاف نہیں لیکن پاکستان کے ساتھ جڑے پلوں کو بند کرنا اور پاکستان کو برا کہنے پر ان کو اعتراض اور کچھ طریقہ کار پر بھی ۔ لیکن کسی بھی طرف سے انتہا پسندی پر جانا مناسب نہیں ۔ حکومت آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ پندرہ ارب وفاقی حکومت دے تو آٹے پر پانچ ارب روپے سبسڈی دی جا سکتی ہے ۔ کشمیر کونسل کے اختیارات منتقل ہونے سے آزاد کشمیر حکومت مالی اور انتظامی طور پر بہت مضبوط ہوئی اور آمدنی میں خاطر خواہ اصافہ بھی ہوا ۔ جب آزاد کشمیر کا میزانیہ 60 ارب تھا اس وقت غیر ترقیاتی اخرجات 50 ارب تھے ۔جب میزانیہ ایک سو چوبیس ارب روپے ہوا تو غیر ترقیاتی بجٹ ایک سو ارب ہو گیا۔ حکومت کا کوئی ترجمان بتائے کہ عوام مسائل کو وفاقی حکومت کی امداد سے مشروط کرنے کا یہ مقصد تو نہیں کہ آئندہ انتخابات میں مظلوم بننے کا آسان راستہ تلاش کیا جا رہا ہے ۔ اگر واقعی وسائل کی اس قدر کمی ہے تو مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کے حلقوں میں کروڑوں روپے کے منصوبے آوٹ آف بجٹ کیسے دئے جا رہے ہیں ۔کیا ان کا مقصد ووٹروں کو خوش رکھنا اور امید وار کے لیے انتخابات کے اخراجات نکالنا مقصد ہے ۔ اگر یہ مقصد ہے تو درست نہیں وفاقی حکومت کی امداد تو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں آتی ہے ۔اگر انہوں نے پندرہ ارب روک رکھے ہیں تو یقینا ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے سو ان کو ہونیں دیں یہ سبسڈی تو غیر ترقیاتی اخرجات ہیں جو حکومت آزاد کشمیر اپنے اخراجات کم کر کے عوام کو دیتی ہے لیکن حکومت کے اخراجات کم نہیں ہوئے عوام کا آٹا مہنگا ہو گیا ۔ عوام کے مسائل حل کرنا مقصد ہے تو عوام کی یہ رائے درست ہے کہ حکومت اور ملک کی معاشی اور اقتصادی صورت حال کچھ بھی ہوا آٹے کے ایک من کی قیمت پر پانچ سو روپے یکمشت اضافہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ۔امیر تو ڈبل روٹی کھا لے گا غریب روٹی بھی نہیں خرید سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button