سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہے پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میثاق جمہوریت معاہدے سے پھر گئیں۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ ووٹ کے خفیہ طریقہ کار کو ختم کرنا تھا لیکن اب سیاسی جماعتیں اس پر عمل نہیں کررہیں۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی پارٹی کے نظم و ضبط کے پابند ہیں، خلاف ورزی پرکارروائی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی کی سزا ووٹوں کی خرید و فروخت پر ہو سکتی ہے، پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے پرنہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلطان طالب الدین نے دلائل میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے، شواہد کسی کے پاس نہیں، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے، آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، افسوس ہے پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اپنے ہی معاہدے سے پھرگئیں، میثاق جمہوریت میں خفیہ طریقہ کارکوختم کرنے کا معاہدہ کیا لیکن دونوں پارٹیاں اب اس پرعمل نہیں کررہیں۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے الیکشن کمیشن کے ترمیم کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کیے بغیر وفاقی حکومت کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔
ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، پنجاب، خیبرپختوا اور اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دلائل کی تائید کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا، آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔
خفیہ ووٹنگ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت خود کو سیاست سے بالاتر رکھے،الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، سپریم کورٹ کا دائرہ ایڈوائزری ہے، عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے۔
ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔