پنسلوانیا: شاید ایک ایک بال گن کر یہ تو بتایا جاسکتا ہے کہ آپ کے سر میں کتنے بال ہیں لیکن یہ بتانا کم و بیش ناممکن ہے کہ اس کائنات میں کتنی کہکشائیں ہیں؟ ہر کہکشاں میں کتنے ستارے ہیں؟ ان میں سے کتنے ستارے ہمارے سورج جیسے ہیں؟ اور یہ کہ ہمارے سورج جیسے ہر ستارے کے گرد ہماری زمین جیسے کتنے سیارے گردش کررہے ہیں؟ اس بارے میں جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں، وہ بہترین اور محتاط ترین اندازوں کے سوا کچھ نہیں۔
اس سب کے باوجود، پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم نے اب تک دریافت شدہ سیاروں کے مقامات اور ان کے مرکزی ستاروں کی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی کمپیوٹر سمیولیشنز کی مدد سے اندازہ لگایا ہے کہ ہمارے سورج جیسے ہر چار میں سے اوسطاً ایک ستارے کے گرد ہماری زمین جیسا کم از کم ایک سیارہ گردش کررہا ہے۔ البتہ یہ ’’ممکنہ تعداد‘‘ زمین جیسے ایک سیارے سے لیکر کر 33 سورج نما جتنی ہوسکتی ہے۔
لیکن یہاں ’’ہماری زمین جیسا سیارہ‘‘ کی وضاحت ضروری ہے۔
فلکیات میں جب ’’زمین جیسا سیارہ‘‘ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد ایسا کوئی بھی سیارہ ہوتا ہے جس کی کمیت ہماری زمین کے مقابلے میں تین چوتھائی (75 فیصد) سے ڈیڑھ گنا (150 فیصد) تک ہو؛ اور جو اپنے مرکزی ستارے (سورج) کے گرد 237 زمینی دنوں سے لے کر 500 زمینی دنوں تک میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہو۔
اب تک دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے 4,031 سیارے دریافت ہوچکے ہیں، جن میں سے لگ بھگ 40 ہماری زمین سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یہ اندازے ان خلائی کھوجیوں کے کام آئیں گے جو آئندہ چند سال کے دوران ہمارے کائناتی پڑوس میں زمین جیسے سیارے تلاش کرنے کےلیے بھیجے جائیں گے۔
اگر صرف اندازوں ہی کی بنیاد پر بات کی جائے تو تازہ ترین تخمینہ جات سے پتا چلتا ہے کہ کائنات میں کہکشاؤں کی مجموعی تعداد 2000 ارب (2 ٹریلین) کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔ ہر کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے تقریباً 100 ارب ستارے ممکن ہیں۔ یعنی پوری کائنات میں زمین جیسے سیاروں کی کم سے کم تعداد 6000 ارب (6 ٹریلین) سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔
اب ان میں سے کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں زمین کی طرح زندگی وجود میں آئی ہوئی ہوگی؟ اور پھر وہ زندگی ارتقاء پذیر ہو کر ہماری طرح ذہین اور ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل مخلوق کی شکل اختیار کر گئی ہوگی؟ ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں؛ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمیں ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب ملے گا بھی یا نہیں۔
نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ’’دی ایسٹرونومیکل جرنل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔