اسلام آباد: سندھ کے ضلع تھرپارکر کی ایک تحصیل (ٹاؤن شپ)اسلام کوٹ میں کنڈرگارٹن کی کلاس میں مہتاب نامی بچہ بڑے اشتیاق سے بلیک بورڈ پر اپنا نام انگریزی میں لکھ رہا تھا۔ وہ بڑی عمدگی سے یہ عمل کررہا تھا۔ نہایت احتیاط سے اپنے نام کا ہر حرف لکھتا اور لکھ کر اونچی آواز میں پڑھتا۔ تاہم، جب تحقیقاتی ٹیم نے اس کے نام کے آخری دو حرف مٹا دئیے اور پھر اس سے پڑھنے کو کہا تو وہ خالی نظروں سے انہیں گھورنے لگا۔مہتاب نے اپناسیکھا ہوانام لکھاتھا، اسی طرح جیسے اپنی نصابی کتابوں کو رٹ کر یاد کرنے کی توقع کی جاتی تھی۔
اس طرح معلومات کی بے معنی یادداشت پاکستان بھر کے کلاس رومز میں دکھائی دیتی ہے جہاں بچوں کی زبان اور ثقافتی ماحول کو زیر غور نہیں لایا جاتا۔ اس سے ایک بحران کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ بچے باقاعدگی سے اسکول جاتے ہیں مگر کسی بھی زبان میں ایک سادہ جملہ پڑھ یا لکھ نہیں سکتے اگرچہ کئی سال اسکول میں گزارتے ہیں۔اس مسئلے کے حل کی کوشش کے سلسلے میں سٹیزن فاؤنڈیشن(TCF)نے تھر فاؤنڈیشن کے اشتراک سے "Finding Identity, Equity, and Economic Strength by Teaching in Languages Children Understand.” کے نام سے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں تجویزدی گئی ہے کہ پاکستان میں، جہاں 70سے زیادہ آبائی زبانیں بولی جاتی ہیں، اور اسی طرح دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کا چیلنج موجود ہے،ان کے تعلیمی نظام میں کس طرح مادری زبان پر مبنی کثیر اللسانی طریقہ ء تعلیم کو شامل کیا جاسکتا ہے۔”مادری زبان” کی اصطلاح اس زبان کیلئے بولی جاتی ہے جو بچے ابتدا سے اپنے گھر میں سیکھتے ہیں اور جب پہلی مرتبہ اسکول آتے ہیں تو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ "ملٹی لینگوئل”(کثیر اللسانی) سے مراد وہ مختلف زبانیں ہیں جو بچے اپنی تعلیم کے دوران میں سیکھتے ہیں۔ ان میں پاکستان میں علاقائی زبانیں جیسے سندھی اور پشتو اور ان کے علاوہ اردو اور انگریزی ہیں۔
مشہورصحافی اور ‘The Tyranny of Language in Education: The Problem and Its Solution’کی مصنفہ مس زبیدہ مصطفے ٰ نے اس رپورٹ کے اجراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،”زبان بچے کی سماجی، ثقافتی اور ذہنی ارتقاء میں مدد دے سکتی ہے یا ان کی سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے۔زبان کو بنیادی تعلیم کا اہم عنصر نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہم ملک میں خواندگی اور سیکھنے کوفروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
۔ ۲ ۔
مجھے خوشی ہے کہ TCF اور تھر فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کو پیش کرنے میں قدم بڑھایا ہے اور اپنے اسکولوں میں اس پروگرام پر عمل درآمد شرو ع کردیاہے۔”
رپورٹ میں تھرپارکر، پاکستان میں تین سال کام،دنیا بھر سے 130سے زیادہ پیشہ ور افراد، پالیسی سازوں اور معلمین سے انٹرویوزاور ایک ہی تنوع کے ممالک کی زبانوں کی پالیسیزکی کیٹلاگ شامل کئے گئے ہیں۔ یہ نصاب کیلئے ایک حل پیش کرتا ہے اور MTB MLE کے ادب میں اضافہ کرتاہے جہاں بہت سی مادری زبانیں ہیں اور جہاں سیکنڈری اسکول کے اختتام تک بچوں سے چار زبانیں بشمول انگریزی سیکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔
TCF کے چیئرمین اور شریک بانی جناب عتید ریاض نے بتایا، "اگر آپ TCFکے اسکول میں تشریف لائیں، تو آپ کو پراعتماد بچے نظر آئیں گے۔ چمکدار آنکھیں، اساتذہ کے ساتھ اپنی نصابی کتابوں کے سبق میں مشغول نظر آئیں گے۔ وہ آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی بتادیں گے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ TCF کے قیام سے ہی اسکولوں میں اردو اور مانوس زبانوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بچوں کو اجازت دی جائے تو وہ اپنی جانی پہچانی زبان میں زیادہ بہتر اظہارکرسکتے ہیں۔اسی طرح بات چیت کرنے میں اگر کسی غیر ملکی زبان جیسے انگریزی میں، زبردستی بات چیت کرنے کو کہا جائے ،جو اسکول سے باہر کم ہی سنتے ہیں،تو ان کو مشکل ہوگی۔ ہم اس اہم تحقیقی پروجیکٹ میں تعاون پرتھر فاؤنڈیشن کے شکرگزار ہیں
تھرپارکر ڈیزرٹ، سندھ میں خصوصی طور پر تیار شدہMTB-MLE پروگرام کا آزمائشی طور پر آغاز کیا گیا۔
2020کے اوائل میں تھرپارکرمیں TCF اور تھر فاؤنڈیشن دونوں کے اسکولز میں 21+کلاس رومز میں تحقیق پرمبنیMTB MLEماڈل پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے جس کا آغازپری کنڈرگارٹن اور کنڈرگارٹن سے کیا گیا ہے۔ان کلاسوں میں طلبہ کو اپنے تعلیمی عرصے کے دوران میں تین سے چارزبانوں میں روانی کے ساتھ عبورحاصل کریں گے جن میں متنوع مادری زبانوں (ڈھٹکی اور سندھی) سے علاقائی زبان (سندھی) پھر قومی زبان (اردو) اور پھر بین الاقوامی زبان انگریزی میں تعلیم حاصل کریں گے۔ پاکستان میں تمام تر اعلیٰ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے جس کی بناء پر انگریزی ایک لازمی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔
تھرفاؤنڈیشن کے CEO سیدابوالفضل رضوی نے بتایا،”تھرفاؤنڈیشن گزشتہ 3سال سے تھرپارکر میں اپنے 27اسکول یونٹس کے ذریعہ معیاری تعلیم فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔ ہمیں کمیونٹی کی فیڈ بیک سے تحریک ہوئی کہ اپنے اسکولوں میں تین زبانوں میں سکھانے کا سلسلہ شروع کریں۔
۔ ۳ ۔
تھر فاؤنڈیشن اور TCFنے مشترکہ طور پر یہ اقدام اٹھایا ہے جس میں تھر فاؤنڈیشن نے 3سالہ پروجیکٹ کیلئے فنڈ فراہم کئے ہیں۔ ہمیں بے حد خوشی ہے تھر کے طلبہ اب سندھی/ڈھٹکی زبانوں میں ابتدائی گریڈ کی تعلیم حاصل کریں گے اور بعد میں اردو اور انگریزی کو بھی شامل کیا جائے گا۔ TCFاس ماڈل کو سندھ کے تمام اسکولوں تک توسیع دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جو ہمارے لئے قابل فخرقدم ہوگا۔”
اس مطالعہ سے پہلے بھرپور تحقیق کے برخلاف TCF مادری زبان پر مبنی تعلیم پر زور نہیں دیتی۔اس کی بجائے یہ حقیقت پسندانہ تجاویز فراہم کرتی ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک کس طرح مضامین کیلئے مادری زبان پر مبنی تعلیم فراہم کرسکتے ہیں جہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور جہاں بچوں سے سیکنڈری اسکول کے اختتام تک چار زبانیں بشمول انگریزی سیکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔
اس رپورٹ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے وزٹ کریں:: www.tcf.org.pk
سٹیزن فاؤنڈیشن (TCF): کے بارے میں:
TCF ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی بنیاد1995 میں شہریوں کے ایک گروپ نے رکھی تھی جو تعلیم کے ذریعہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے خواہشمند تھے۔ 25 سال گزرنے کے بعد آج TCF کا شمار ملک کے صف اوّل کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جوپاکستان بھر میں اپنے1,652 اسکولوں میں کم مراعات یافتہ طبقے کے 266,000 طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرچکاہے۔
TCF ماڈل پاکستان کے شہری مضافات اور دیہی کمیونٹیز میں واقع خصوصی طور پر تعمیر کئے گئے اسکولوں کے ذریعہ معیاری تعلیم فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ ادار ہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مجموعی طور پر طلبہ کی انرولمنٹ میں تقریباََ 50% لڑکیا ں شامل ہوں۔
اس تاثر میں اضافے، انرولمنٹ اور تعلیم کے معیار میں بہتری لانے کیلئے TCFنے پاکستان بھر کے سرکاری اسکولوں کو گود لینے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔