انڈین فوج نے منگل کو ذرائع ابلاغ میں گردش کرتیں ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ لداخ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے ’مائیکرو ویو ہتھیاروں‘ کا استعمال کیا تھا۔
اقوامی تعلقات کے پروفیسر جن کینرانگ کے حوالے سے کچھ میڈیارپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ’چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے دو سٹریٹجک یا اہم پہاڑیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انھیں ‘مائیکرو ویو اوون‘ میں تبدیل کر دیا تھا‘ اور ان بلندیوں پر موجود انڈین فوجیوں پر ڈائریکٹ انرجی ہتھیاروں یعنی ڈی ای ڈبلیو کا استعمال کیا گیا۔‘
انڈین فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پبلک انفارمیشن (اے ڈی جی پی آئی) کے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے کہا گیا ہے کہ ’مشرقی لداخ میں مائیکرو ویو ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق میڈیا رپورٹس بے بنیاد ہیں۔ یہ خبریں جعلی ہیں۔‘
دفاعی ماہر اور انڈین دفاعی رویو کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کرنل دان ویر سنگھ کا کہنا ہے کہ چین کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے۔
سنگھ کا کہنا ہے ‘اس طرح کے تمام ہتھیار لائن آف سائٹ پر کام کرتے ہیں ۔ ان کا استعمال ویسے بھی پہاڑی علاقوں میں کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ کوئی منطقی بات نہیں ہے۔ یہ مکمل طور پر چینی پروپیگنڈا ہے۔‘
دفاعی اور سکیورٹی امور پر لکھنے والے سینیئر صحافی راہول بیدی کہتے ہیں ‘یہ ایک جھوٹی خبر لگتی ہے۔ یہ چینی پروپیگنڈا لگ رہا ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نظر نہیں آ رہی۔‘
انڈیا چین کشیدگی
چینی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پی ایل اے نے انڈیا اور چین کے مابین مشرقی لداخ میں جاری فوجی کشیدگی کے دوران انڈین فوج کو کچھ بلند مقامات سے بے دخل کرنے کے لیے مائیکرو ویو ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔
کینرانگ کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے ’انڈین فوجیوں نے قے کرنا شروع کردیا اور وہ 15 منٹ کے اندر اندر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈین فوجیوں کو یہ پہاڑیاں چھوڑنا پڑیں اور اس کے بعد پی ایل اے کے فوجیوں نے ان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دوران ’پی ایل اے کے فوجیوں کو گولیاں نہیں چلانی پڑیں اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان فائر نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی۔‘
کینرانگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’یہ واقعہ 29 اگست کو پیش آیا۔ اور چین اور انڈیا دونوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر اس واقعے کی تشہیر نہیں کی ہے۔‘
تاہم اب ان تمام باتوں کو انڈین فوج نے جھوٹی خبر قرار دے دیا ہے۔
’مائیکروویو ہتھیار‘ کیا ہوتے ہیں؟
مائیکرو ویو ہتھیار ایک قسم کا ڈائریکٹ انرجی ہتھیار ہے۔
یہ مائیکرو ویو الیکٹرو یا مقناطیسی تابکاری کی ایک شکل ہوتی ہے۔ ان کی ویو لینتھ ایک ملی میٹر سے لے کر ایک میٹر تک ہوتی ہے۔ ان کی فریکوئنسی 300 میگا ہرٹز اور 300 گیگا ہرٹز کے درمیان ہوتی ہے۔
انھیں ہائی ریڈیو فریکوئنسی بھی کہا جاتا ہے۔
کرنل دان ویر سنگھ کہتے ہیں ‘یہ بھی اسی طرح سے کام کرتا ہے جس طرح گھر میں مائیکرو ویو کام کرتا ہے۔
’اس میں ایک مقناطیس ہوتا ہے جو مائیکرو ویو لہروں کو بھیجتا ہے۔ یہ لہریں جب کھانے یا کسی چیز سے گزرتی ہیں تو حرارت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہتھیار بھی اسی اصول پر کام کرتے ہیں۔‘
چین کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے سنگھ کا کہنا ہے کہ آپ خود سوچیں کہ اتنی بلندی پر فوجیوں کو ہٹانے کے لیے کتنے وزنی ’میگرے ٹارن‘ بنانا پڑیں گے۔
’دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ مائیکرو ویو لہریں بھیجیں گے اور اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے، جوابی کارروائی نہیں کریں گے؟‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ بہت بڑا میگرے ٹارن بنا بھی لیتے ہیں تو بھی آپ کو اسے بہت دور سے استعمال کرنا ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ناممکن ہے۔ ’چھوٹی سطح پر ہو بھی سکتا ہے لیکن چین جس پیمانے پر دعویٰ کررہا ہے وہ بالکل ناممکن ہے۔‘
سنگھ کا کہنا ہے کہ مائیکرو ویو ہتھیار کی کوئی منطق ہی نہیں ہے کیونکہ قیمت کے لحاظ سے اور دوسری صورت میں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
لیزر پر مبنی ہتھیار
لیکن راہول بیدی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ہتھیار ممکن ہیں۔
وہ کہتے ہیں اسے ‘نان کانٹیکٹ وار فیئر’ کہا جاتا ہے جس میں آپ توپ خانے، گولیاں یا ٹینکوں کا استعمال نہیں کرتے۔
’اس قسم کی جنگ میں آپ الٹرا وائلیٹ شعاعوں کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن چین کا یہ دعویٰ فرضی لگتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے ‘یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چین ان ہتھیاروں کو کس مرحلے پر تیار کررہا ہے۔ یہ ہتھیار مستقبل کی حقیقت ہیں۔‘
مسٹر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’لیزر پر مبنی ہتھیار موجود ہیں۔ فسادات پر قابو پانے جیسے معاملات میں لیزر استعمال ہوتا ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر لیزر ہتھیاروں کا استعمال عملی نہیں ہے۔‘
19 ویں صدی کے آخر میں ڈی ڈبلیو پر تحقیق کا آغاز ہوا۔ 1930 میں ریڈار کی دریافت کے ساتھ اس سمت میں نمایاں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
الین ایم والنگ کی کتاب ہائی پاور مائیکرو ویو ویز میں سٹریٹجک اور آپریشنل امپلیچشن فار وارفیئر کو تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ وائرلیس اور ریڈار ٹیکنالوجی کا ظہور فوجی شعبے میں تیزی سے ہوا ہے۔ ان میں ایڈوانس ایریئل وارننگ اور ویپن فائر کنٹرول شامل ہے۔
سائنسدان اور انجینئر فریکوئنسی سپیکٹرم پر مستقل کام کر رہے ہیں اور توانائی کی سطح کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اضافی ایپلیکیشنز کو بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
ڈائریکٹ انرجی کو کبھی سائنس فکشن کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن اب یہ حقیقت بن چکی ہے۔ تاہم ڈائریکٹ انرجی سپیکٹرم کے ہائی پاور مائیکرو ویو ٹیکنالوجی کے پہلو پر نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے۔
انڈیا میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ ڈائریکٹ انرجی ہتھیاروں یا ڈی ڈبلیو پر بھی کام کر رہا ہے۔
ڈائریکٹ انرجی ہتھیار ایسے ہتھیار ہیں جو بے حد فوکس انرجی سے اپنے اہداف کو ختم کردیتے ہیں۔ اس فوکس اینرجی میں لیزر، مائیکرو ویو اور پارٹیکلز بیم شامل ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کی ممکنہ استعمال میں ایسے ہتھیار شامل ہیں جو فوجیوں، میزائلوں اور آپٹیکل ڈوایئسز کو نشانہ بناتے ہیں۔
روایتی ہتھیاروں کے مقابلے ڈائریکٹ انرجی ہتھیار زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
ان ہتھیاروں کو خفیہ طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سپیکٹرم کے اوپر اور نیچے ریڈییشن پوشیدہ ہوتی ہیں اور آواز پیدا نہیں کرتیں۔
لیزر یا مائیکرو ویو پر مبنی ہائی پاور ڈی ای ڈبلیو دشمن کے ڈرون یا میزائل کو بیکار بنا دیتے ہیں۔