کالم

ایرانی حملہ اور پابندیوں کے خدشات

ایران کے اسرائیل پر حملے نے بین الاقوامی طور پر دنیا کو حیران تو کردیا ۔ اسکےبعد سے امریکہ اور یورپی یونین ایران پر نئی پابندیاں لگانے پر غور کر رہے ہیں۔امریکہ کی سیکرٹری خزانہ جینٹ یلن نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ وہ ’اگلے چند دنوں‘ میں اسے حوالے سے کوئی اقدامات اٹھائیں گی، جبکہ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربرابپ جوزف بورل کاکہنا ہےایران پر پابندیوں سے متعلق کام ہورہا اور جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی اپنے اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے میزائل پروگرام پر پابندی عائد کریں۔ اس پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیاں گزشتہ اکتوبر میں ختم ہوئی تھیں۔ ان پابندیوں کا تعلق ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے سےمتعلق تھا۔تاہم امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے یہ پابندیاں نہ صرف برقرار رکھی تھیں بلکہ مزید بھی عائد کی تھیں۔امریکی سیکرٹری خزانہ جینٹ ییلن نے کہا کہ پوری توقع ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں ایران کے خلاف اضافی پابندیوں کی کارروائی کریں گے۔ ہم اپنی پابندیوں کے طریقہ کار کا جائزہ نہیں لیتے۔ لیکن اس حوالے سے جو بات چیت ہوئی ہے اس میں ایران کی دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔`اس حوالے سے ایران کی تیل کی برآمدات سے متعلق فیصلہ متوقع ہو سکتا ہے۔ ایرانی تیل کی برآمد سےمتعلق کچھ اور بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں لیکن یہ قبل از وقت ہے کیوں بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ایران پر مزید پابندیوں کے حوالے چوں مگوں کیفیت کا شکار ہیں اس کی وجہ دنیا کے معاشی پسماندگی ہے اور امریکی معیشت بھی اس قدر طاقتور نہیں رہی جو بین الاقوامی تجارت پر کسی بھی قسم کے فیصلےآزادانہ طور پر کرسکیں۔ادھردوسری جانب برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ایم آئی 6 کے سابق سربراہ سر جان ساورز کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ برطانیہ کے لیے ایران کے پاسداران انقلاب گارڈز پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ کیونکہ اسرائیل نے ایران کی مسلح افواج کے سب سے طاقتور دستے پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساورز کےمطابق انسداد دہشت گردی کی قانون سازی دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیے کی گئی تھی،یہ ریاستوں سے نمٹنے کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ایک ریاست دہشت گرد تنظیم کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ایک نیا انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس نے ایم آئی فائیو کو ملک کے دفاع کے لیے درکار اختیارات فراہم کیے تھے، لیکن وہ کہتے ہیں کہا ایم آئی فائیو کے سربراہ پاسداران انقلاب پر پابندی لگانے کا نہیں کہہ رہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ سیاسی بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔دوسری طرف اسرائیل اور امریکا کے سفارتی تعلقات اس نہج پر آچکے ہیں کہ امریکی حکام کا کہنا ہےکہ اسرائیل نے ابھی تک امریکہ کو مطلع نہیں کیا کہ وہ اگلا کس قسم کا یا کیا قدم اٹھائے گا۔
امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے ایران پر براہِ راست حملے کے شدید نتائج ہوں گے اور خطے میں بین الممالک جنگ کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔اور جبکہ اسرائیل ابھی تک مسلسل ایران کے حملے کا جواب دینے کا عزم دہرا رہا ہے۔ لیکن یقینن اسرائیلی جنگی کابینہ کے فیصلے جس میں ایران پر موئثرجوابی حملے کی منظوری دی گئی تھی اس فیصلے میں اندرونی اختلافات پاۓ جاتے ہونگے اور اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی جنگی کابینہ کے مذ ید اجلاس بھی ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ دنوں جو اسرئیلی جنگی کابینہ کے فیصلے کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ محض جلد بازی اور کنفوزن کا شکار اندرونی مسائل پر دہ ڈالنے اور بھگلاہٹ کاشکار معلوم ہوتا ہے خیال کیا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد ایران اور اسرائیل کے مدِبقابل آنے کے امکانات مذید بڑھ گئے ہیں۔ اور جیسا کہ اسرائیلی حکام نے اپنے لائحہ عمل کا اب تک باضابطہ طور پرکوئی اعلان نہیں کیا ہے۔کہ مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق اسرائیل کی جنگی کابینہ ایران کے حملے کے بعد سے اس پر سوچ بچاراور کسی آخری فیصلے تک پہنچنے میں مخمسے کا شکار نظر آتی۔
یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کھل کر حمایت کے نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل اگلا کوئی ایسا قدم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھائےکہ اس سے خطے میں تنازع بڑھنے نہ پائے۔ اسرائیل کا کوئی بھی اقدام محدود پیمانے پر ہو، جیسے خطے بھر میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملے یا ایران پر سائبر حملہ وغیرہ۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل سے مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب ایران پراعتماد نظر آتا ہے اور کسی بھی معمولی اسرائیلی کارروائی کا بھی سخت اور دردناک جواب دے سکتاہے۔ ایرانی صدرجب رئیسی اپنے سرکاری بیان میں اسرائیل اور تمام ممالک کو اس حوالے سے آگاہ کرچکے ہیں کے ایران پر مذید براہِ راست حملے کے اب شدید نتائج ہوں گے اور خطے میں بین الممالک جنگ کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ کسی بھی ممکنہ اسرائیلی حملے کی صورت میں خطے میں کھلی جنگ چھڑنے کا بھی خطرہ ہے، ایسے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ بچار لازمی ہے۔ایرانی حدود میں براہِ راست حملے کی صورت میں اسرائیل پر بھی براہِ راست جارحانہ حملہ یقینی ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کی جانب سے بھی حملے بڑھ سکتے ہیں۔ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ کے پاس فلسطینی عسکری تنظیم حماس سے زیادہ طاقتور اسلحہ موجود ہے۔ لیکن اس نے اب تک کھلی جنگ کے آغاز سے گریز کیا ہے۔ حزب اللہ کے ساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے شمالی اسرائیل سے اب تک ساٹھ ہزار شہری اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔ تنازع کے بڑھنے سے ان افراد کا گھروں کو واپس آنا مشکل ہوجاۓگا۔ ساتھ ہی ساتھ تہران نے اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ حملے کے بدلے میں سخت ردِ عمل دینے کا جو عندیہ دیا ہے۔ اسرائیل کو ایسے موقع پر ایران کے چیلنج کا سامنا ہے جب وہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ اور آپریشن کر رہا ہے جب کہ لبنان سے اسے حزب اللہ کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔ اگر دیکھا جاۓ کہ اسرائیل اگر تنہا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو خطے میں تازہ حاصل کی گئی خیر سگالی سے محروم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل اس (خیر سگالی سے) فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مزید حملے نہ کر کے وہ ساکھ قائم کر سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button