تحریر ! عقیل احمد ترین
فوج نے آئی چیف جیسے طاقتور عہدے والے کا احتساب کر لیا۔ سویلین ادارے کیا کررہے ؟فیض حمید کا کورٹ مارشل کوئی معمولی بات نہیں ۔ فوج نے بتا دیا ان کا خود احتسابی نظام بہترین ہے کورٹ مارشل کے بعد ناقدین کیا اب اپنی توپیں عدلیہ اور بیوروکریسی میں بدعنوانیوں کی طرف موڑیں گے؟۔ فوج نے سب سے بہتر سب سے برتر ہونے کا ثبوت دیدیا اب باری عدلیہ بیوروکریسی کی ہے سوشل میڈیا بعض اوقات ایسے سوال اٹھاتا کہ الامان الحفیظ ! ثاقب نثار کیخلاف بھی ایکشن مانگ لیاسول سوسائٹی اب یہ روایت ڈالے جس کیخلاف سکینڈل آئے اسکو استعفے پر مجبور کر دےکیا واقعہ چاچو شہباز کی حکومت طاقتور حلقوں کیلئے Liability بنتی جا رہی؟شہباز حکومت کا بڑا Failure سیاسی عدم استحکام, انکی میڈیا ٹیم معاشی اعشاریئے کیش نہ کرا سکیکیا لیجنڈ نوازشریف کی ن لیگ کا واقعی یہ حال ہے کہ آج الیکشن ہوں تو تیسرے نمبر پر آئے؟کیا وجہ ہے کہ شہباز شریف کا ایڈمنسٹریٹوچہرہ پھیکا تر ہورہا ؟ آج 77واں یوم آزادی ہے،بدقسمتی سے ہم اپنی سمت درست کرسکے نہ اہداف۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید (ر) کو فوجی حراست میں لئے جانے اور کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے کی خبر نے ملک میں ایک عجیب سا سناٹا طاری کردیا ہے! فیض حمید کو جو لوگ جانتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فیض حمید ایک ایول جینئس آفیسر رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف اتنا بڑا قدم کسی نورا کشتی کے لئے نہیں اٹھایا گیا ہوگا۔ ڈی جی آئی صرف ایک فوجی عہدے کا نام نہیں بلکہ دنیا بھر میں دفاع اور انٹیلی جنس سے متعلقہ حلقوں کے لئے ایک معتبر اور طاقت کااستعارہ وتا ہے۔ اتنے بڑے اور طاقتور عہدے سے ماضی میں جڑے کسی بھی آئی چیف کیخلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ جذبات یا جانبداری کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا ۔اسکی ضرورت کیوں پڑی ؟ اس پہ صرف فی الحال یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک تو SIFC کیلئے یہ ضروری تھا کہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ آپ سرمایہ کاری لائیں اب محکمانہ دخل اندازی نہیں ہوگی،یہ درست ہے کہ اس کورٹ مارشل سے فوج کا کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال ،ڈسپلن اور ٹریننگ کے غلط استعمال کیخلاف زیروٹالرنس واضع ہوتا ہے۔پیارے پڑھنے والو! فوج نے یہ بتا دیا کہ اسکا خود احتسابی کا کتنا مضبوط نظام موجود ہے ؟فوج نے ان نقادوں کا منہ بھی بند کردیا ہے جو فوجی افسران کیخلاف کرپشن کا الزام لگانے اور پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ "کرپشن کی اصل جڑ فوج ہے” اب جبکہ آئی چیف کے لیول کے عہدیدار کیخلاف کورٹ مارشل کارروائی شروع ہو گئی ہے تو کیا فوج کے ناقدین اپنی توپوں کا رخ دوسرے سویلین اداروں میں ہونیوالی بے قاعدگیوں، بیڈ گورننس کی طرف کرنا پسند کرینگے؟جن کیخلاف آڈیوز ویڈیوز اور ثبوت کئی طرح کے سامنے آتے رہے ،لیکن وہاں پرنہ خود احتسابی ہوئی نہ محکمانہ کارروائی اور نہ ہی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس بنیں! کیوں؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوج نے سب سے بہتر اور سب سے برتر ہونے کا ایک بار پھر ثبوت دیدیا اور یہ بتا دیا کہ وہ پاکستان اور اسکی ساکھ کیلئے کتنا سوچتے اور عمل کرتے ہیں ؟۔ اب باری ہے سویلین اداروں کی کہ وہ بھی اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کیخلاف ایکشن لیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ عدلیہ میں موجود بعض ریٹائرڈ ججز کے احتساب کا بھی کوئی طریقہ ہے؟ کیا سویلین بیورو کریسی کے احتساب کا بھی کوئی طریقہ ہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ بیورو کریسی کا احتساب FIA کرتی ہے اور نیم سرکاری وکارپوریٹ سیکٹر کا نیب! تو پھر سن لیجیئے ہمارا مقدر ڈوبنا ٹھہرا۔پیارے پڑھنے والو! اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنی کرپشن اور بیڈ گورننس بیورو کریسی اور عدلیہ میں ہے وہ کہیں اور نہیں ! آپ فیض حمید کیس کو سٹڈی کر لیں۔ اس میں کتنے ڈپٹی کمشنرز کتنے تحصیلدار اور کتنے ججز ملوث تھے؟ آپ کو پتہ لگ جائے گاسوشل میڈیا اس لحاظ سے بڑا ظالم ہے کہ وہاں جہاں فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا سیلاب ہوتا ہے وہاں پر کچھ ”دل جلے” حقائق بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد فوری یہ سوال اٹھا کہ فیض حمید کے اس وقت کے ڈارلنگ چیف جج ثاقب نثار وغیرہ پر ہاتھ کون ڈالے گا؟ جنہوں نے ٹاپ سٹی کیس کا ریکارڈہی ضائع کردیا۔میرے آج کے آرٹیکل کا موضوع اور تھیم بڑی واضع ہے کہ فوج نے تو اپنے اندر شفاف اور بے رحم احتساب کا فی عرصے سے شروع کر رکھا ہے۔ اسکی رپورٹس وقتاً فوقتاً ہمیں سرگوشیوں کی شکل میں ملتی رہتی ہیں۔ لیکن باقی اداروں سے احتساب کی کوئی خیر خبر نہیں آتی ؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کیا اعلیٰ عدلیہ بیوروکریسی بھی از خود کوئی ایسا میکنزم بنائے گی کہ جو بھی اختیار سے تجاوز کرنے ۔بیڈگورننس کا باعث بننے والوں کو خود کار طریقے سے جزاء و سزا کے فلٹر سے گزارے؟ اس ملک میں اب اس روایت کو آگے بڑھانا ہوگا کہ جس بیوروکریٹ ،عوامی نمائندے یا سرکاری ملازم کو کسی سکینڈل یا کرپشن الزامات کا سامنا ہو اسکو رضاکارانہ طور پر خود کو اس کرسی سے الگ کر لینا چاہئے۔ اگرچہ یہ دیوانے کا خواب ہے اور اسکی منزل ابھی دور ہے ،لیکن فوج کے خود حتسابی میکنزم کے بعد مجھے یقین ہونے لگا ہے کہ شاید خود احتسابی کا زنگ آلود پہیہ اب پارلیمان ،ریاست حکومت عدلیہ اور انتظامیہ کیخلاف بھی چلے گا۔ پیارے پڑھنے والو! ایک افواہ یہ ہے کہ ”چاچو شہباز” کی پرفارمنس سے طاقتور حلقے اب کچھ خاص خوش نظر نہیں آرہے۔ خدشہ ہے کہ اب انہوں نے مسلم لیگ ن کو ایک Liability کے طور پر لینا شروع کردینا ہے۔ اگرچہ شہباز حکومت کے معاشی اعشاریئے درست اور اچھے ہیں لیکن بعض اہم ترین معاملات پر چاچو وہ پرفارمنس نہیں دے پائے جو ان سے توقع کی جارہی تھی، ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی کے طوفان نے ہر حلقے کو متاثر اور پریشان کر رکھا ہے۔ لوگوں کے گھروں میں فاقے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ والدین بچوں کی سکول فیسیں دینے کے قابل نہیں رہے۔ اوپر سے شہباز چاچو نے جو اپنی ٹیم بنا رکھی ہے ان میں سوا ئے محسن نقوی کے کوئی رزلٹ نہیں دے پا رہا ۔ میڈیا ٹیم کی حالت یہ ہے کہ وہ آج تک اتنے اچھے معاشی اعشاریوں بارے قوم کو تسلی نہیں دے سکے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ شہباز چاچو کا ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کا چہرہ سازش سے پھیکا کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر روز اضافے نے نوازشریف جیسے لیجنڈری لیڈر کی مسلم لیگ ن کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ اب تو کہنے والے کہتے ہیں کہ کل اگر الیکشن ہو جائیں تو حکومت کی تمام تر خرابیاں شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ڈال کر پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتیں نکل جائیں گی اور ن لیگ کا حال مسلم لیگ (ق) کے جیسے ہو جائیگا اور اسکی واحد وجہ وفاق میں اچھی ٹیم کا نہ ہونا ہے۔ شہباز چاچو ہمیشہ نوجوانوں کی بات کرتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ سوائے بلال اظہر کیانی ،فہد ہارون کے میڈیا میں کے ان کے اردگرد کوئی نیا چہرہ نظر نہیں آرہا وہی پرانے بابے دہائیوں پرانی تھیوریز اور وزارتوں سے چمٹے رہنے کے شوق میں حکومت ،ملک کا اور ن لیگ کا بیڑا غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔



