کالم

جنرل فیض حمید اس انجام تک کیوں پہنچے؟ آرمی چیف عاصم منیر کے صبر کو سلام ۔۔عقیل ترین نے اپنے کالم میں ایسا انکشاف کردیا کہ ہر کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

جنرل فیض حمید اس انجام تک کیوں پہنچے؟ آرمی چیف عاصم منیر کے صبر کو سلام ۔۔عقیل ترین نے اپنے کالم میں ایسا انکشاف کردیا کہ ہر کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

تحریر !عقیل احمد ترین
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور اس سے جڑی اطلاعات پریشان کر دینے والی ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود بعض مستند ہینڈلرز نے جو انکشافات کئے ہیں اس کے بعد لگ یہی رہا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ملک میں باقاعدہ انٹیلی جنس کا غیر قانونی متوازی نظام چلا رہے تھے، جن کے پختہ رابطے فوج کے اندر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کیساتھ موجود تھے ،اور تو اور کورٹ مارشل کا سامنا کرنیوالے فوجی بھگوڑے میجر (ر) عادل راجہ کو دی جانیوالی ڈس انفارمیشن کا تعلق بھی اسی گینگ سے تھا۔ میرا ذاتی یہ خیال ہے کہ سابق آئی چیف پر آج تک سامنے آنے والے الزامات اتنے سنگین نہیں جتنے ان پر کےپی کے اور ٹی ٹی پی سے متعلقہ بعض الزامات ثابت ہونیوالے ہیں۔ بطور کورکمانڈر پشاور شاید ان پہ وطن کی سالمیت کے بعض معاملات پر مجرمانہ چشم پوشی کے الزامات بھی سامنے آسکتے ہیں! اگرچہ میں نے جنرل باجوہ کی توسیعی ملازمت کے لئے اچھل کود ،دیگر سازشوں سے لیکر جنرل عاصم منیر کی تعیناتی تک کے معاملات پر اس وقت بہت کچھ لکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جنرل ر فیض حمید طویل عرصہ تک فوج کا حصہ ہونے اور اسکے نظام کو سمجھنے کے باوجود اس حال تک کیوں پہنچے؟ انہوں نے فوج میں ملازمت اور ڈی جی سی بننے کے بعد بے شمار دولت کمائی تھی۔ وہ ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک تھے ،وہ محل نما گھر کے باسی اور آدھ درجن اربوں روپے کی پراپرٹیز کے اکلوتے مالک تھے انکی ایک ہی بیےی ہے ،وہ کس کیلئے طاقت اختیار اور اقتدار کیلئے اندھے تھے؟ جتنے بینک بیلنس ، تعلقات ، ریلیشن شپ کی طاقت ،ایک بڑی سیاسی جماعت کےغیر اعلانیہ گرو کے درجے پہ فائز تھے تو انکو اور کیا چاہیئے تھا؟ سوال یہ ہے کہ ہر نعمت کے حصول کے بعد جنرل فیض حمید نے یہ سب کیوں کیا ؟میں سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کی تقسیم پر راضی نہیں تھے وہ فرعون وقت کے درجے پر تو بطور ڈی جی آئی فائز تو تھے ہی، لیکن وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انتقام اور حسد کی آگ میں جلتے رہے ،وہ شاید اپنی 10 سالہ پلاننگ کے فلاپ ہونے اور عاصم۔منیر کی بھرپور مخالفت کے باوجود آرمی چیف بننے پہ غصے و انتقام مئں جل رہے تھے،انکی بدقسمتی کہ انکو عمران خان جیسا لائی لگ بھی مل گیا جو اپنے اقتدار کی خاطر جنرل فیض کے زاتی انتقام کی جنگ میں اسکا اتحادی بنا، جنرل فیض کو عمران پہ کی گئی سرمایہ کاری پہ بہت یقین تھا لیکن ہوا کچھ اور! ،دیکھا جائے تو ان کا واحد سہارا اور طاقت عمران خان تھے ،جو سابق آئئ چیف کے مداح بھی تھے اور دونوں کا Cult ،سوچ اور طریقہ واردات بھی ایک تھا ،دونوں کی کیمسٹری اس قدر ملتی تھی کہ دونوں نے زمینی حقائق اور اللہ کی تقسیم کے الہامی فارمولے کیخلاف اپنا سیاسی و عسکری کیریر اور اپنی زندگیاں دائو پر تو لگائیں ہی ساتھ اپنے معصوم فالورزاور نوجوانوں کو بھی گمراہ کر کے ریاست پاکستان کیخلاف کھڑا کر دیا۔ ہم تو شروع سے سب جانتے تھے کہ لطیفال تحریک انصاف کا ہیڈکوارٹربن چکا ہے ،وہ مسلسل عمران خان کو سیاسی سہولت مہیا کررہے تھے۔ ان کے ہاتھوں لگائے گئے کئی ججز سپریم کورٹ میں اس وقت موجود ہیں اور شاید اسلام آباد لاہور ہائیکورٹ میں بھی ہیں۔جنرل فیض حمید 3 محاذوں پر کھیل رہے تھے، سیاسی محاذ پر پاکستان تحریک انصاف ،عمران خان کو جیل کے اندر اور ان کی پارلیمان میں موجود لیڈر شپ کو کنٹرول کر کے انہیں ریاست و اسٹیبلشمنٹ کیخلاف استعمال کرکے، دوسرا ٹی ٹی پی کیساتھ رابطے کر کے اسکو پی ٹی آئی کا غیر اعلانیہ عسکری ونگ بنا کر کے پی کے میں فوجی آپریشن کیخلاف مزاحمت پیدا کر کے اور تیسرا فوج کے اندر اور باہر میجر عادل راجہ و بریگیڈیئر نعیم و بریگیڈیئر غفار ٹائپ کے ایسے دوستوں و ما تحتوں کو استعمال کرکے نہ صرف9 مئی جیسا خوفناک سانحہ کرا کر فوج کو دبائو میں لانے کی کوشش کررہے تھے بلکہ آرمی چیف کیخلاف بغاوت کو initiates بھی کیا۔ بات ہورہی تھی کہ جنرل فیض نے یہ سب کیوں کیا؟ تو اسکا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے جنرل فیض حمید کا جنرل عاصم منیر اور ن لیگ سے انتقام لینا !پیارے پڑھنے والو! گرفتاریوں کے بعد سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ اپنے دو سابق ماتحتوں کیساتھ گرفتار ہو چکے ہیں ،کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کو جب مال روڈ راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تو ان کا موبائل کچھ دیر کے لئے ان کے پاس رہنے دیا گیا جس پر جنرل فیض حمید نے کچھ حاضر سروس اور اہم عہدے پر موجود دوستوں کو کال بھی کی ،اس موبائل سے اورلطیفال سے ملنے والے لیپ ٹاپ اور دیگر حرب کمیونیکیشن سے ملنے والی انفارمیشن میں بعض حاضر و ریٹائرڈ ججزکیخلاف بھی سہولتکاری کے شواہد ملے ہیں۔ یہاں تک کہاجارہا ہے کہ سابق آئی چیف سسٹم کے اندر موجود اپنے دوستوں اورریٹائرڈ افسران کیساتھ مل کر ایک ایسا نیٹ ورک چلا رہے تھے جو بہت سارے خوفناک دھندوں میں ملوث تھا۔ پیارے پڑھنے والو! جنرل عاصم منیر بہت صبر والے اور جہاندیدہ آدمی ہیں انہوں نے اپنے خلاف بہت ساری سازشیں بہت ساری کردار کشی اور Below the belt وی لاگز کو برداشت کیا۔ وہ EPI سنٹر بارے جاننے کے باجود خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے اور پھر اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی اور پورا نیٹ ورک ہی بے نقاب ہوگیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ احمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام سے شروع ہونیوالے پراجیکٹ عمران خان کے لئے پاکستان کے پالیسی سازوں کو جرمنی اور ترکی میں نازی ازم اور ترک انقلاب کی طرح کا آپریشن کرنا ہوگا۔ اور اس آپریشن کے لئے ججز جرنیلوں جرنلسٹس اور بیورکریٹس کی بڑی تعداد کو پکڑنا ہوگا تب جاکر پاکستان ایک معتدل اور انتہائوں سے پاک سیاسی نظام کی طرف بڑھ سکے گا۔ پیارے پڑھنے والو! گزشتہ روز جنرل حمید گل مرحوم کی صاحبزادی عظمیٰ گل کے کالموں کے مجموعے اسیروفا کی تقریب رونمائی تھی، وہاں پر وزیر اطلاعات آزادکشمیر ،پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر میجر جنرل (ر) جاوید اسلم سابق سفیر و ترجمان دفترخارجہ عبدالباسط اور ڈاکٹر عارف صدیقی نے جنرل حمید گل اور نظریہ پاکستان پر کھل کر بات کی اس موقعہ پر یوسف گل ، مولانا فضل الرحمن خلیل ، بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیصل مسعود ،شیخ متین اور سید منظور شاہ بھی موجود تھے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button