تحریر۔۔۔۔۔۔ عقیل احمد ترین
پاکستان تحریک انصاف اس وقت معتوب جماعت ہے لیکن اسے تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود آئین پاکستان جلسے جلوس کرنیکا بنیادی حق دیتا ہے ،آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے قوانین کی موجودگی اور اس پر سب کے متفق ہونے کے باوجود کیا وجوہات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا ہر جلسہ ،ہر MOVE ہر تقریر اسکے گلے کا پھندا بن جاتی ہے؟ ہمارے لیے اسکی تازہ مثال 8ستمبر کے اسلام آباد سنگجانی میں اسکے جلسے کے بعد کی پکڑ دھکڑ ، اگلے دن وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی رات 3بجے تک پر اسرار گمشدگی اور پھر پشاور پہنچنے کی شکل میں موجود ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر پاکستان تحریک انصاف کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیساتھ آخر پھڈا کیا ہے َ؟ملٹری اسٹیببلشمنٹ اور پاکستان تحریک انصاف آخر ایک دوسرے کیخلاف میدان میں کیوں ہیں؟اسکے لیے ہم کو 2009سے شروع کرنا پڑیگا اسمیں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی پاکستانی سیاست میں 2009تک پہچان ایک تانگہ پارٹی کی تھی،جسکی سواریاں بھی پوری نہ تھیں ۔وہ 2002 اور 2007 کے انتخابات میں پورے ملک تو کیا راولپنڈی ا اسلام آباد سے بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے نہ کرسکے تھے پھر اچانک ان کو خیبرپختونخوا میں مینڈیٹ ملا اور اس مینڈیٹ کا احترام کرنا اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا بڑا پن تھا جو شاید ان کی ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔ اقتدار کی سیاست ہمیشہ سے بے رحم رہی ہے یہ بھائی کو بھائی کا گلہ کاٹنے اور بیٹے کو باپ کے سامنے کھڑا کردیتی ہے اسکی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہی،ں ہوا یہ کہ پاکستان تحریک انصاف کو 2009 میں جب ملٹری اسٹیبشلمنٹ نے گود میں لیا تو اس وقت تک ان کو معلوم نہ تھا یا اندازہ نہ تھا کہ یہ بچہ عالمی طاقتوں کا وہ خفیہ مہرہ ہے جس پر دہائیوں سے انویسمنٹ کی جارہی تھی، بہر حال 2009کے بعد آنیوالے تین ڈی جی آئی نے بڑی محنت، جانفشانی سے پراجیکٹ عمران خان کو دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابل کھڑا کیا، جن کا واحد ہدف ن لیگ کامکمل صفایا اور کمزور پیپلزپارٹی تخلیق کرنا تھا، ہم جیسے اخبار نویسوں نے تواتر سے عمران خان پر ہونیوالی نوازشات اور انہیں مسلسل سیاسی طاقت کی فراہمی بارے پالیسی ساز اداروں کو خبردار کیا کہ یہ الٹا آپکے گلے پڑے گا،لیکن اس وقت شاید اسوقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ایک ہی ٹارگٹ تھا اورہ وہ تھا ن لیگ سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لینا اور پیپلز پارٹی کو سرجری کے ذریعے ساتھ ملائے رکھنا۔بدقسمتی یہ رہی کہ عمران خان کی پشت پہ احمدی انیل مسرت اور ان جیسوں کی شکل میں آں کھڑے ہوئے جسکا ادراک شاید ادارے نہ کرسکے،شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ عمران خان جب وزیراعظم بنے تو ان کو متعدد بار جی ایچ کیو مدعو کیا گیا ۔لاتعداد بریفنگز دی گئیں اور شاید وہ پہلے وزیراعظم بھی تھے جو ISI کے ہیڈ کوارٹر میں تواتر سے جاتے رہے، اس پر بھی ہم دبے الفاظ میں ویک اپ کال دیتے رہے لیکن بات وہی تھی کہ عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا کیونکہ ہم نے آرٹیکل کے شروع میں سوال اٹھایا تھا کہ یہ لڑائی اس قدر خوفناک کیوں ہوگئی کہ تحریک انصاف کو 9مئی کرنا پڑا ،ارشد شریف کو راستے سے ہٹانا پڑا اور مسلسل جی ایچ کیو پر دبائو رکھنے کے لیے عالمی میڈیا میں انٹرویوز اور عدالتوں میں پیشیوں کے موقعے پر پاور شو کرنا پڑا؟ اسکی واحد وجہ یہ تھی کہ عمران خان کو 2009سے لیکر 2018تک اور اسکے بعد 2020تک ( جب تک معاشی حالات بگڑے نہیں اور ایک صفحہ پھٹا نہیں )مسلسل یہ سبق پڑھایا جاتا رہا کہ ” تم آخری آپشن ہو” تمہارے سوا کوئی نہیں!یہ سلوگن اصل میں جس شخص نے گھڑا وہ فیض حمید تھا ،جسکا واحد مقصد آرمی چیف بننے کے بعد صدام حسین ،بشارالاسد اور معمر ْقذافی بننا تھا ، فیض حمید کا پلان تھا کہ وہ ایک بار آرمی چیف بن جاتے تو احتساب کے نام پر ایسا پہیہ چلائے گا کہ پی ٹی آئی ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی اسکا نشانہ بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دب جائے اور تاعمر جناب پاکستان کے بادشاہ ہوتے،فیض حمید بارے یہ خدشہ بھی تھا کہ وہ آرمی چیف بننے کے بعد عمران خان کو بھی راستے سے ہٹا دیتے ،آج بھی یہ شک کیا جارہا ہے کہ عمران خان پر گوجرانوالہ میں جو حملہ ہوا تھا وہ کوئی ڈرانے والا نہیں تھا ،نہ نورا کشتی تھی بلکہ وہاں اصل ٹارگٹ کلر تھا جسکا نشانہ شاید عمران خان تھا اگر اس دن یہ خدشہ یا سازشی تھیوڑی سچ ہوجاتی توسوچئے کیا ہوتا؟اب چلتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ لڑائی آخر ہے کیا َ؟تو اسکے سمجھنے کے لیے آپ کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پیدا ہونیوالے حالات کو سمجھنا ہوگا جناب عمران خان نے اپنے 3سالہ وزارت عظمی میں دو بڑے خوفناک کام کئے ایک تو Cpec کو مکمل غیرفعال بنائے رکھا دوسرا خیبرپختونخوا میں نہ صرف طالبانزیشن کو بڑھاوا دیا بلکہ ان کو غیر اعلانیہ عسکری ونگ بھی بنایا ،شاید اسکی تفصیلات بھی جنرل (ر)فیض حمید اور عمران خان کی آپس میں واٹس ایپ چیٹ کی شکل میں مل چکی ہوں ۔اس لیے میری سمجھ کے مطابق اس وقت عمران خان (پوری PTI نہیں ( اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان چور سپاہی کی آنکھ مچولی جاری ہے، عمران خان کی کیونکہ ٹریننگ میں ہی یہ تھا کہ وہ مخالفین کو لتاڑ کر ان کو پریشرائز کرکے اپنے مقاصد حاصل کرے،لہذا وہ آج بھی اپنے ملکی اور غیر ملکی ہمدردوں کے زریعے اس ٹریننگ کے تحت اسٹیبلشمنٹ کیخلاف دباو بڑھانے پہ کام کررہے ہیں،لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کو جو ثبوت مل چکے ہیں، جو کے پی کے اور بلوچستان میں عمران خان کا بویا کاٹنا پڑرہا ہے اس لئے اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان کو سند قبولیت کا شرف نہیں بخش رہی! یہ سارا کھیل اعصاب کا ہے جسے فی الحال اسٹیبلشمنٹ جیت رہی ہے، لیکن اسکا حل نہ نکالا گیا تو شاید اسکے اثرات زیادہ تباہ کن ہوں ،لہذا ریاست کو مذاکرات گفتگو کیساتھ سرجری کے آپشن پر کام جاری ر کھنا چاہئے پیارے پڑھنے والو !پاکستان ٹیلی ویژن کے حوالے سے بہت سی خبریں ہیں ،اسلام آباد سے کنٹرول ہونیوالے پی ٹی وی ملتان میں کیا ہورہا ہے ؟ اس حوالے سے بات پرائم منسٹر پورٹل تک پہنچی ہے ؟اسکوManuplateکرکے کیسے دبایا گیا اس حوالے سے جلد لکھوں گا،وہاں ہائرنگ ،ہاوس رینٹ کے نام پہ کیا ہورہا وہ بھی موضوع ہوگا



