کالم

پٹرولیم مصنوعات سستی ہونا اچھا لیکن اسکا فائدہ مہنگائی کمی کی شکل میں نہیں ہورہا،کالم نگارعقیل احمد ترین کاایسا انکشاف کہ سب چونک جائیں،کالم پڑھ کر آپ بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں گے

تحریر!عقیل احمد ترین
ایک طرف فوج قربانیاں دے رہی ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے گرائونڈ سپورٹ مہیا کرنے ،سیاسی استحکام لانے کی بجائے الٹا ایک دوسرے کیساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہیں ,جو تماشا ججز ترامیم پہ ہفتہ کے روز سے اتوار کی رات تک لگایا گیا اس کے بعد تو سچ پوچھیں پارلیمنٹ اور خاص کر پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی سیاسی کریڈیبلیٹی پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے،اس ناکامی اور مشکوک قسم کی ترامیم کے بعد تو سنجیدہ لوگ یہ پوچھنے لگ پڑے کہ کیا اس پارلیمان کو 5 سال بھی پورے کرنے چاہیئں ؟ یہ تو اچھا ہوا کہ نواز شریف کو مولانا کے پاس بھیجنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا وگرنہ اس پردہ نشیں مسودےکے چکر میں میاں نواز شریف کی عزت کو داو پہ لگا دیا جاتا۔ہوا کیا؟ کس نے اس مسودہ کو مشتبہ بنادیا ؟ یقینا اس پہ نواز لیگ اور زرداری پارٹی تحقیقات ضرور کرینگی کہ اس ترمیم کے ناکام ہونےسے جو سب زیادہ Damageہوئے وہ یہی دونوں جماعتیں ہیں جو اقتدار اور پارلیمان کے کھیل کی پرانی کھلاڑی رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ملک تیزی سے سوشل Implosionکی طرف جارہا ہے جس کی ذمہ دار موجودہ سیاسی لیڈرشپ ہوگی خیبرپختونخوا میں نفرت کا بیچ بڑی خاموشی سے بو کر اسکی آبیاری کرکے اسکو اتنا قداور کردیا گیا ہے کہ اب سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے نمٹا کیسے جائے ؟ یہی حال بلوچستان میں بھی ہے جہاں فارن فنڈڈ دہشتگردوں سے لڑنے والی افواج پاکستان گولیوں ،بم دھماکوں خودکش حملوں اور گھات لگا کر حملوں کی زد میں ہیں، ،بات یہاں رک نہیں رہی دشمنان پاکستان جو سب سے خوفناک اسلحہ استعمال کررہے وہ ہے ڈیجیٹل میڈیا کے زریعے افوا ج پاکستان اور پاکستانی اداروں کیخلاف عوام میں نفاق ڈالنا۔ہم اگر 2018سے 2024تک کا تفصیلی جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عمران خان کے دورحکومت سے عوام کے لیے پی ڈی ایم ،کاکڑ اور اب شہباز حکومت زیادہ ڈرائونا اور تباہ کن خواب ہے اسمیں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر پنجاب میں مریم نواز کارکردگی نہ دکھا رہی ہوتیں عوامی فلاحی منصوبے تواتر سے نہ دے رہی ہوتیں تو مسلم لیگ ن کا کب کا دھڑن تختہ ہوچکا ہوتا پاکستان سے محبت کرنیوالے میرے ایک دوست جن کی پلاننگ و معیشت لےبعض معاملات پر گہری نظر ہوتی ہے انہوں نے بتایا کہ "پاکستان کیخلاف بہت سے محاذوں پر کام ہورہا ہے جیسے اب مقبوضہ کشمیر میں دیکھیں ،مودی نے بڑی چالاکی سے ہمارے لیے کے پی کے اور بلوچستان میں حالات خراب کرکے چور ی چوری چپکے چپکے ایک غیر قانونی و غیراخلاقی رائے شماری کرنے جارہا ہے، جبکہ پاکستان اندرونی عدم استحکام کے اژدھا سے نبر آزما ہے، اگر دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام لانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ کیا سیاسی و معاشی استحکام لانا جنرل عاصم منیر کی ذمہ داری ہے یا پھر شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی ؟ شفاف تجزیہ کیا جائے تو جتنا عرصہ عمران خان کو حکومت کے لیے ملا کم و بیش اتنا ہی شہباز شریف کو بھی مل چکا ،( پی ڈی ایم ،کاکڑ سرکار اور اب ) تو پھر بتایا جائے عوام کو ریلیف کہاں ملا ؟ سیاسی استحکام کہاں آیا؟مذاکرات کے زریعے کون سی منزل یا ہدف پورا کیاگیا؟ حکومت تو ججز ترمیم پہ بھی مخمصہ کا شکار ہےاور وہ بھی اسوقت جب اسکو عمران خان کی طرح فوج و عدلیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے،سوال یہ بھی ہے کہ معاشی استحکام کی منزل کیلئے ایس آئی ایف سی کے لیے آرمی چیف کی ذاتی محنت کا درست درست فائدہ کیوں نہ اٹھا یا جاسکا ؟کیاصرف قرض کے 7 ارب ڈالرکیلئے گارنٹیاں لینا ملکی معیشت کیلئے کافی تھا یا پھر سرمایہ کاری لانا کیلئے اسے استعمال کرنا ضروری تھا؟ پلاننگ کمیشن اور شہباز حکومت کیا اتناسادہ سا اصول بھی سمجھتی کہ معیشت کو درست کرنے کے لیے اخراجات گھٹانے اور ایکسپورٹ بڑھانے پر کام کرنا ہوتا ہے ہم نے سوائے PWDکو بند کرنے جیسے بلنڈر کے علاوہ اخراجات گھٹانے کے نام پر کیا کیا ؟کیا پی ڈبلیو ڈی کے پراجیکٹس صوبوں کو دے دینے سے کرپشن رک جائیگی ؟ یا اسمیں اور اضافہ ہوگا ؟ اگر پی ڈبلیو ڈی میں کرپشن ہورہی تھی تو اسکو روکنا اسکی مانیٹرنگ اور احتساب کی ذمہ داری کس کی تھی؟ آپ دیکھ لیں ہم نے گزشتہ 3سالوں میں اپنی معیشت کو کتنا expandکیا ؟ ہماری کارکردگی یہ ہے کہ ہم تین سال سے 368ارب ڈالر پر رکے ہوئے ہیں ،جس سے ہمارا مقابلہ ہے اسکی معیشت 368ٹریلین ڈالر پر کھڑی ہے ،ہماری فی کس آمدن تک شرمندگی کے سوا کچھ نہیں،سوال یہ ہے کہ ٹیکس پر ٹیکس لگا کر ہم یہ ملک کتنا عرصہ اور چلا سکتے ؟ اتنے ٹیکسز لگا دیئے گئے ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے ،صرف بجلی قیمتوں ،افراد زر کو کنٹرول نہ کرنے سے معاشی بے راہ روی کی وہ خوفناک مثالیں ہمارے ارد گرد پیدا ہوگئی ہیں کہ الامان الحفیظ! رئیل اسٹیٹ کو ختم کردیا گیا ہے ،زراعت پہلے سے عالم نزح میں ہے ،اور انڈسٹریز کا حال یہ ہے کہ روزانہ کارخانے بند ہورہے ،انڈسٹریاں باہر شفٹ ہورہی ہیں ،وجہ صرف یہ ہے کہ باہر سے سرمایہ آنے کا میکنزم ہے واپس باہر لیجانے کا کوئی نہیں !گزشتہ تین سالوں میں 57ارب ڈالر کا قرضہ چڑھ گیا ؟ یہ پیسہ کہاں گیا ؟ کہاں فیکٹریاں لگیں ؟ کہاں انڈسٹریل زونز بنے ؟ کہاں ایسا انفراسٹرکچر بناکہ اس سے ٹرانسپوٹیشن کا فائدہ ہوا ؟ مذاکرات میں مہارت اتنی ہے کہ ہم حیدر آباد موٹروے CPEC کے تحت بنا نہ سکے !اگر سیاسی و معاشی ماہرین تنقید کرتے ہیں کہ فوج نے بزنس ایمپائر کھڑے کیے تو سوال یہ ہے کہ سویلین اداروں نے کیوں نہ کھڑے کیے ؟ ان کو کس نے روکا تھا ؟ پی آئی اے ،ریلوے اور سٹیل ملز سے لیکر درجنوں ایسے ادارے ہیں جو دیکھتے دیکھتے برباد ہوئے ؟ ایسے میں اگر فوج نے کامیاب بزنس ماڈل دیا تو سویلین اسکو سٹڈی کرتے نہ کہ تنقید ،سویلین حکومت نے اگر مقابلہ کرنا ہے تو پرائیویٹ سیکٹرز کو سہولیات دے ان کو ون ونڈو سلوشن دے پھر دیکھیں ملک ترقی کیسے کرتا ہے !یہاں پر 100ارب ڈالر قرض چڑھ گیا ،جس میں سے آدھے کے قریب 6،7سالوں میں چڑھا تو اگر اس کے آدھے سے بھی انڈسٹر یلا ئزیشن کردی جاتی تو آج نوکریاں ہوتیں لیکن اسکا جواب کوئی نہیں دے گا، لیکن ایک دوسرے پر ڈال کر بلیم گیم سے قوم کو بیوقوف بناتے رہیگا۔سارے آرٹیکل کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک جمود کا شکار ہے، ہم 7ارب ڈالر قرض ملنے پر بھنگڑے ڈال رہے،لیکن دشمن نے ہمیں کے پی کے اور بلوچستان میں گردن سے دبوچ رکھا ہے ،اس سے پہلے کہ سوشل implosion ہو ،بنگلہ دیش عرب سپرنگ جیسی کوئی تحریک ہم پر تھوپ کر قتل و غارت کی راہ ہموار کردی جائے ہمیں بہت سے معاملات پہ نظر ثانی کرنا ہوگی۔پیارے پڑھنے والو !شہر میں افواہ ہے کہ نومبر اور دسمبر اہم ہے ،بلاول بھٹو اہم ہورہا ہے، اگر میاں نواز شریف نے پنجاب کی حد تک خود کومحدود کیے رکھا تو بڑا نقصان ان کی طرف بڑھ رہا ہے ،اسٹیبلشمنٹ کو بھی اگر ملک کو آگے لیکر جانا ہے تو عمران خان اور نواز شریف کے حوالے سے فیصلوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی ،پیارے پڑھنے والو جناب وزیراعظم شہباز شریف نے راولپنڈی اسلام آباد کو مکمل یتیم کردیا ہے ،حنیف عباسی ،طارق فضل چوہدری اور انجم عقیل کو لگتا کسی سے کھڈے لائن لگا دیا جو نہ صرف پنڈی اسلام آباد کے عوام کی حق تلفی ہے بلکہ اس کا سیاسی نقصان بھی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button