کالم

ہر بات سب نہیں سمجھتے

ڈاکٹر محمد امجد
سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ
اس دنیا میں اس وقت بیشمار ممالک موجود ہیں، انکی حکومتیں و حکومتی ادارے موجود ہیں اور وہ نظام و سسٹم موجود ہیں جن کے تحت یہ تمام ممالک چلتے ہیں لیکن!!! ان تمام ممالک کے حالات ایک جیسے نہیں ہیں ۔ اسطرح کہ کچھ تو اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ ترقی خود پیچھے اور وہ ملک آگے نکل چکے ہیں، حد سے زیادہ خوشحال و خود مختار ہیں جن کے عوام کو ہر طرح حقوق حاصل ہیں۔ عوام کیا انکے تو جانوروں کے حقوق کا بھی اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنا تحفظ انسانی حقو ق کو حاصل ہے اور کچھ ممالک اتنے غیر ترقی یافتہ اور غریب ممالک ہیں کہ انہیں ممالک نہیں غربت ہی غربت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ صرف یہی نہیں کہ کچھ امیر تر اور کچھ غریب سے غریب تر ہیں بلکہ سسٹم یہ ہے کہ جو غریب سے غریب تر ہیں انکی تڑپتی و سسکتی بقاء کا انحصار بھی امیر و ترقی یافتہ ممالک کی خوشی و مرضی پر ہے۔ لہٰذا اپنی بقاء کیلئے غریب ممالک کو یا غریب ممالک کے ذمہ دار لوگوں کو نا جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ ان پاپڑوں میں سب سے بڑا پاپڑ جو انہیں بیلنا پڑتا ہے وہ یہ کہ اپنے عوام کو کس طرح مطمئین کریں؟ عوام کو کیسے سمجھائیں کہ فلاں بڑے ملک کے پائوں نہ پکڑے تو وہ کونسی بڑی خفیہ مار دیکر ہمیں مزید بے حال کر دیگا؟ عوام کو یہ کیسے باور کرایا جائے کہ عزیز بھائیو آپ کی طرح ہم بھی بخوبی جانتے ہیں کہ فلاں ملک، ہمارے ملک کا د ل سے خیر خواہ نہیں ہے، ہمیں اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے، مگر یہ باتیں ہم زبان پر نہیں لا سکتے اور آپ یہ تاثر لے رہے ہو کہ ہم جو آپکے بڑے ہیں وہ آپکے دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آپ عوام اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کر دیتے ہو کہ فلاں ملک ہمارا دشمن ہے اسی طرح ہم آپکے بڑے بھی کر دیں تو وہ ممالک ہمارے ملک ہی کو ختم کر دینگے۔ ایسا نہ ہو اس لیے ہم وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں جسکی اجازت نہ ہمیں ہمارا دل دیتا ہے نہ ضمیر۔ کمزور و غریب ممالک کے ذمہ داروں کو جس دوسری بڑی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انکے سامنے کم از کم دو بلاک یا دو گروپ ہوتے ہیں جیسا کہ اب ہے!!!
غریب و کمزور ممالک کو کھانے و گزارہ کرنے کیلئے جو مدد درکار ہوتی ہے وہ انہی دو گروپوں یا کسی ایک گروپ سے لینا ہوتی ہے تو یہ مثلاََ غریب ممالک کے حکمرانوں کیلئے اسطرح ایک عذاب بنا ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز انہیں کسی ایک گروپ سے مناسب قرض پر مل سکتی ہے تو وہ ایسا راستہ کونسا اختیار کریں کہ ایک گروپ سے مدد بھی مل جائے اور دوسرے کو پتہ بھی نہ چلے تا کہ وہ دشمن بن کر کسی دوسری طرف سے کوئی دوسرا نقصان نہ کر جائے۔ تو سوچیں اس صورتحال میں ملک کے فیصلے کرنیوالوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہونگے؟ وہ کس طرح اپنے ملک کے دشمنوں سے اپنے ملک کیلئے کوئی مدد حاصل کرتے ہونگے؟ اسکا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ اس سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ !! کیا یہ کام کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی لیڈر کے بس کا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ نہیں جناب یہ کام کم از کم موجودہ سیاست یا جمہوریت کے بس کا نہیں ہے کیوں؟ اس کیوں کا پہلا جواب یہ ہے کہ سیاسی دور حکومت کوئی بھی ہو وہ وقتی ہوتا ہے اس نے اپنی مدت وقت پوری کرنی ہوتی ہے اس لیے اسے ملک ہی کیوں نہ دائو پر لگانا پڑے وہ دریغ نہیں کرتا، دوئم یہ کہ اسے عوامی ردعمل کا خیال رکھنا پڑتا ہے، سوئم یہ کہ اسے سیاسی مخالفین کی تنقید کا بھی سامنا کرنا ہوتا ہے اور آنیوالے الیکشن کا بھی خیال ہوتا ہے، باقی رہا مال بنانا اور ساتھیوں کی مالی پوزیشن کو مستحکم کرنا یہ تو آج کی سیاست کا بنیادی اصول ہے، سب سے اہم یہ کہ حالات ملکی ہوں یا غیر ملکی ، انکو سمجھنے انکے مطابق تیاری کرنے کیلئے وطن عزیز پاکستان میں کوئی سیاسی تربیت گاہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون موجود ہے کہ کسی سیاستدان کیلئے قومی سیاست میں آنے کیلئے کن کن باتوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ سیاست تو دور کی بات یہاں الیکشن کمیشن کو پتہ نہیں ہوتا کہ قانون اہلیت کیا ہے؟ بس اچانک ہی سب کچھ ہو جاتا ہے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں اب تک بہت کچھ ہوتا رہا ہے، بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہوتا رہے گا اور یہ سب کچھ سات پردوں کے پیچھے ہوگا تو پھر ہر بات ہر کسی کی سمجھ میں کیسے آئیگی؟ نہیں آئیگی۔ سیاست کو کم از کم یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال کیلئے سمجھ بوجھ کے میدان میں آتی ہے یا لائی جاتی ہے جب اسکی سمجھ کی پٹاری پکی پکی بند کر دی جاتی ہے تو عوام کی سمجھ میں تو کچھ آ ہی نہیں سکتا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ !!! پاکستان اور پاکستان جیسے دیگر57اسلامی ممالک اور انہی جیسے افریقی ممالک جو اب تک اپنی برائے نام آزاد حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں تو لازمی بات ہے ایسا بلا وجہ تو نہیں ہے۔ ان ممالک کے کوئی نہ کوئی ادارے یا لوگ ایسے ضرور ہونگے جو اپنے حالات کے علاوہ دوسرے بڑوں کے حالات کو بھی سمجھتے ہونگے۔ اسکے بعد وہ کچھ ایسی پالیسیاں بناتے ہونگے کہ کسی طرح خود کو اور اپنے ممالک کو قائم رکھ سکیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور پاکستان جیسے دوسرے کمزور ممالک میں آخر ایسے کونسے ادارے ہو سکتے ہیں جنہوں نے اب تک اپنے ممالک کی برائے نام ہی سہی لیکن آزادحیثیت قائم رکھی ہوئی ہے؟ تو جواب بھی ملتا ہے اور کھلی آنکھوں سے نظر بھی آتا ہے کہ غریب ممالک میں صرف دو ہی ایسے ادارے ہوتے ہیں جو وراثت سے ماورا ہوتے ہیں جن کا ہر فرد جب ان اداروں میں ہوتا ہے تو اٹھارہ انیس برس کا نوجوان ہوتا ہے، اسکی کوئی پوزیشن نہیں ہوتی اسکی صرف تربیت ہوتی ہے اور جب وہ چالیس یا پچاس سال کا ہو جاتا ہے تب تک اسے دنیا میں ہونیوالی ہر بات اور سمجھا دی جاتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ فرد کسی نہ کسی قومی ذمہ داری کو پورا کر نے کے کسی عہدے پر نامزد ہوتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کونسے دو ادارے ہیں جن میں داخل ہو کر تربیت حاصل کرنیوالے لوگ جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تب انہیں امور مملکت چلانے میں شامل کیا جاتا ہے تو اسکا جواب ہے!!! ”فوج” اور ”بیوروکریسی” جی حضور!! یہ دو ادارے جن میں وہ افراد تیار کیے جاتے ہیں جو پوری دنیا کے ہر قسم کے حالات سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں لیکن انکے ہاتھ پائوں بندھے ہوتے ہیں اسطرح کہ حکومتوں کے فیصلے ان سیاستدانوں نے کرنے ہوتے ہیں جو اس سلسلے میں کسی بھی تربیت کے مرحلے سے نہیں گزرے ہوتے بلکہ انہیں صرف اتنا علم ہوتا ہے کہ فلاں بڑے ملک کی تابعداری کے صلے میں اتنا اقتدار مل سکتا ہے کہ اپنی بادشاہت قائم کی جا سکے!!
اس قسم کے ماحول کے باوجود جو وطن کے ملازم ہوتے ہیں وہ اٹھائے گئے حلف کا پاس ضرور رکھتے ہیں انہیں جہاں دیگر باتوں کا علم ہوتا ہے وہاں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ اگر وہ اعلانیہ وطن پرستی کرتے رہے تو دشمنوں کے اندر کبھی نا جا سکیں گے ۔ وہ جانتے ہیں کہ انکے دشمن کس قسم کے کردار کو پسند کرتے ہیںلہٰذا وہ عوام میں خود کو بدنام کر کے ایک طرح سے ایک قربانی دیکر وہ کردار بننا قبول کر لیتے ہیں جو دشمنوں کو پسند ہوتا ہے اور انہیں عملی طور پر ثابت بھی کرنا پڑتا ہے کہ وہ دشمن کی پسند کے بندے ہیں مگر یہ بات عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور لوگ بطور خاص سوشل میڈیا تو ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ جاتا ہے، ہو سکتا ہے کچھ حقیقت میں ایسے ہوں بھی مگر95%سے زیادہ لوگ محب الوطن اور سچے پاکستانی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button