"عالمی
تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214
امریکہ میں انتخابات ھوچکے ہیں اور گنتی کا عمل بھی تقریباً مکمل ھوچکا ہے اور اس وقت حتمی طور پر ڈیموکریٹس امیدوار جوبائیڈن 284 الیکٹورل ووٹوں کیساتھ امریکا کے 46 ویں صدر بن چکے ہیں جبکہ وہ ساڑھے 7 کروڑ ووٹوں کیساتھ سابق صدر باراک اوباما کا ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل اور 7 کروڑ ووٹوں کیساتھ تاحال دوسرے نمبر پر موجود ہیں ابھی کچھ ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن کی جیت کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کا عندیہ دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ پوسٹل ووٹوں کی گنتی روکی جائےکیونکہ وہ جیت چکے ہیں۔ انہوں نے دھاندلی کا الزام لگاتے ھوئے کہا ہے کہ مجھے جان بوجھ کر ہرایا جارہا ہے وہ امریکی فوج کو مئورد الزام ٹھہراتے ھوئے کہہ رہے ہیں کہ فوج اور میڈیا مجھے ہروانا چاہتے ہیں۔ کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ھوچکا ہے ٹرمپ اور اسکے حامیوں نے نتائج ماننے سے انکار کردیا ہے اور وہ سڑکوں پر آگئے ہیں جبکہ جوبائیڈن کے حامی ان کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے ہیں ملک میں مظاہرے شروع ھوچکے ہیں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے ان مظاہروں میں پانچ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی زخمی ہیں وائٹ ہاؤس کے سامنے دونوں امیدواروں کے حامی اکٹھے ہیں ایک کے حامی خوشی منا رہے ہیں جبکہ دوسرے کے حامی احتجاج کررہے ہیں۔ اس ساری صورتحال پر اگر غور کریں تو معاملات بالکل واضح نظر آتے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بات سچ ثابت ھوتی نظر آتی ہے کہ انہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ہروایا ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات کا یقین کرلیا جائے کہ اسے فوج نے ہروایا ہے تو آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ فوج کو موسٹ پاپولر شخص کو ہٹانا پڑا اور اسکی جگہ 78 سال کے ایوریج پاپولر شخص کو لانا پڑا, آئیں ایسے چند محرکات کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔
سب سے پہلے اگر دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ پورا ملک ایک سائیڈ پہ جارہا تھا یہ ایک انوکھے صدر کی حیثیت سے سامنے آئے جنہوں نے اپنے بولڈ فیصلوں سے سب کو حیران کردیا۔ دوسرا ان کا جھکاؤ وائٹ امریکنز کی طرف زیادہ تھا اور امریکہ میں بلیک امریکنز سے امتیازی سلوک بڑھتا جارہا تھا اور آئے روز کسی نہ کسی بلیک امریکن کا قتل اور پھر ملک میں ہنگاموں سے اسٹیٹ میں انتشار سا پھیل رہا تھا لہذا یہ بات اسٹیبلشمنٹ کو بےچین کیے ھوئے تھی۔ تیسری وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ اسے مسلم دنیا میں تنہا کررہا تھا جسکی وجہ سے مسلم ممالک کے بلاک کی خبروں نے پینٹاگون کی نیندیں حرام کر رکھی تھی الغرض امریکہ اپنا وجود کھوتا جارہا تھا اور اسکی سپرمیسی پر سوالات اٹھ رہے تھے لہذا ان کو ہٹانے کیلئے باقاعدہ ایک میٹنگ رکھی گئی جو انتہائی خفیہ تھی اس میں سی آئی اے چیف سمیت ملکی سلامتی سے وابستہ اہم افراد نے شرکت کی اور انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر اس ساری کہانی کو دیکھا جائے اور پھر اپنے ملک پاکستان کی طرف نظر دوڑائی جائے تو حالات کچھ same نظر آتے ہیں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف جن کو 28 جولائی 2017 میں پانامہ کیس اور کرپشن کی وجہ سے عدلیہ نے نااہل کیا تو انہوں نے شور مچانا شروع کردیا اور ریاستی اداروں کا نام لیکر انہیں مئورد الزام ٹھہرایا جانے لگا اس کام میں ان کی بیٹی مریم نواز جوکہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر بن چکی ہیں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور میاں صاحب کے لندن جانے کے بعد ان کے بیانیے کو نہ صرف پاکستان میں زندہ رکھا بلکہ اپوزیشن کی 11 جماعتوں کیساتھ ملکر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بناکر ریاستی اداروں کو پریشر میں لانے کی کوشش کی گئی اور اب تک کی جارہی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک کی فوج اگر اپنے ملک کی سلامتی کیلئےکوئی بھی فیصلہ کرتی ہے تو اس کا وہ فیصلہ اپنے ملک کیلئے بہترین فیصلہ ھوتا ہے کیونکہ جنگی محاذوں پر فوج لڑتی ہے سیاستدان نہیں اگر سیاستدان ملک سے مخلص ھو تو وہ ایسی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔ چاہے ڈونلڈ ٹرمپ ھوں یا میاں نوازشریف,آصف زرداری اور عمران خان کسی کو بھی ملک کی سلامتی داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں ہےکیونکہ ملک ہے تو یہ سب ہیں اگر ملک نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس بات کی فکر وہ کرے جس نے ملک میں رہنا ھو جن کا سب کچھ باہر ھو ان کو اس ملک اور اسکی سلامتی سے کیا غرض وہ تو سینہ ٹھوک کر سجن جندال اور مودی جیسوں کو دوست اور یار بتائیں گے۔ اچھا کبھی ایسا ھوا ہے کہ کسی بھارتی وزیراعظم یا سیاستدان نے یہ کہا ھو کہ انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے کلبھوشن یادو کو لعن طعن کیا ھو اور بھارتی آرمی یا RAW کو نشانہ بنایا ھو کہ وہ پاکستان اور دوسرے ہمسائیہ ممالک میں کیوں دہشت گردی کروا رہے ہیں کسی بھارتی سیاستدان نے یہ کہا ھو کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کررہا ہے اور بھارتی فوج ظالم ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ھوتا کہ کوئی اپنے ملک کی سلامتی کیخلاف بولے,اپنی حرکتوں سے احمق نظر آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الزامات لگانے کیلئے جوبائیڈن اور ڈیموکریٹس کو تو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن تاحال ان کا فوج کیخلاف اسطرح کا بیان سامنے نہیں آیا جسطرح کے بیانات تین وقت کے وزیراعظم پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ اور انکی صاحبزادی دے رہی ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں پاکستان دن بدن مستحکم سے مستحکم ھوتا جارہا ہے اور عالمی دنیا پاکستان کی اہمیت کا سرعام اقرار کررہی ہے حالیہ افغان مفاہمتی عمل کو ہی دیکھ لیں امریکہ اور طالبان کو ایک میز پر لانے اور جنگ کی بجائے ٹیبل ٹاک شروع کروانے والے پاکستان کو عالمی دنیا خراج تحسین پیش کررہی ہے اور خود سپر پاور امریکہ پاکستان کا مشکور نظر آتا ہے جسکی واضح مثال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مدت کے دوران پاکستان پر کوئی امریکی ڈرون حملہ نہیں ھوا خاص کر آخری دو سالوں میں یہ حملے بالکل ختم ھوگئے ہیں اور امریکہ جیسا ملک بھارت کی بجائے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے لہذا حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ جان لیں کہ بیشک وہ سیاست کریں لیکن خدارا اپنے ملک کی سلامتی داؤ پر نہ لگائیں اور ترقی کی جانب بڑھتے پاکستان کو بریک نہ لگائیں آپ کی انہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان فیٹف کی گرے سے وائٹ لسٹ میں نہ آسکا اور یہ تلوار ھمارے سروں پر 2021 تک لٹکتی رہے گی۔ متحد ھوکر پاکستان کیلئے سیاست کریں اور اس خداداد سلطنت کے دشمنوں کی چالوں کو اپنی بہترین سیاست سے ناکام بنائیں خدا میرے ملک اور اسکے محافظوں کی حفاظت فرمائے خدا میرے پاکستان کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دے۔آمین