اہم خبر

سینٹ الیکشن اور جہانگیر ترین کے گھوڑوں کا آپسمیں کیا تعلق؟

PDM اورحکومت میں آخری
لڑائی پارلیمنٹ میں ہی ہوگی
شو آف ھینڈ سے سینٹ الیکشن کرانا اتنا سادہ وآسان نہیں جتنا حکومت سمجھ رہی

اپوزیشن کیساتھ لڑائی کے بعد بھی کیا آرٹیکل 59 اور 226 میں حکومت آئینی ترامیم لانے کی پوزیشن میں ہے؟

کیا جہانگیر ترین کے” گھوڑوں "کے خوف سے سینٹ الیکشن کا طریقہ کار بدلنے کی حکومتی آئی؟
پارلیمنٹ میں PTIکوpdm کے کچھ اصولی مطالبات ماننا ہونگے!

فارن فنڈ کیس آنیوالے دنوں میں اہم ہوجائیگا،کیا کہیں مذاکرات ہورہے ؟

"گنتی تو کم از کم ٹھیک ٹھیک ہوئی”،؟یہ اطمینان سیاستدانوں کو کون دلوائے گا؟

الجزیرہ،بی بی سی اور VOA کی اپوزیشن جلسوں بارے رائے کیا ؟
عقیل احمد ترین

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور ملک کے 65 فیصد ووٹ لینے والی اپوزیشن کے مشترکہ فورم پی ڈی ایم کے درمیان تنائو انتہا پر پہنچ گیا ہے ۔لفظی جنگ اور سیاسی اکھاڑوں سے شروع ہونیوالی جدوجہد اب پارلیمانی اور آئینی بحران کی طرف اس لئے چل پڑی ہے کیونکہ وزیراعظم جناب عمران خان نے سینٹ کے الیکشن قبل از وقت اور شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کا عندیہ دیا ہے ۔میری اس حوالے سے آئینی ماہرین سے گپ شپ ہوئی ہے تو اکثر کا خیال ہے کہ سینٹ کے الیکشن قبل از وقت اور مروجہ آئینی طریقہ کار ہٹ کرانا اتنا بھی سادہ اور آسان نہیں ہے جتنا حکومت اسکو سمجھ رہی ہے ۔باالفرض اگر حکومت ایسا کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے آئین کے آرٹیکل 59 اور آرٹیکل 226 میں آئینی ترامیم لانا پڑینگی ۔ اس پر سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اگر حکومت کیساتھ سادہ قانون سازی تک کرنے کو تیار نہیں تو یہ آئینی ترامیم کیسے ہونگی ؟ اسکے بغیر نظریہ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کرکے اگر کوئی ریلیف لیا گیا تو وہ آئین سے متصادم ہوگا جسکا رد عمل حکومت کیلئے یقینا زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ہوسکتا ہے ۔پارلیمانی امور کے ایک ماہر زیڈ اے خواجہ کا کہنا ہے کہ اگر آرٹیکل 59 میں آئینی ترامیم کے ذریعے کوئی تبدیلی لائی گئی تو پھر سمجھ لیں کہ سینٹ کا ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا ۔اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ سینٹ الیکشن میں ووٹ ٹرانسفر ایبل ہوتے ہیں اور ملٹی پل اہمیت رکھتے ہیں ،لہذا ملٹی پل ووٹ کی حیئیت تبدیل کی گئی تو سینٹ کا توازن بگڑ جائیگا،اور اسکی برابر کی نمائندگی کی بنیادی روح گھائل ہوجائیگی ،
اور اگر اس بنیادی نکتہ کی موجودگی میں بھی کسی نے سپریم کورٹ کی رولنگ کے پیچھے پنا ہ لینے کی کوشش کی تو وہ تباہ کن ہوگا کیونکہ وہ رولنگ لوکل باڈی الیکشن کیلئے تھی جبکہ سینٹ الیکشن آئینی ڈھانچے کا حصہ ہے، اگر پرویز مشرف نے2002 سینٹ الیکشن میں ہاتھ کھڑے کرکے ووٹنگ کرائی تھی تو انہوں نے آرٹیکل 41(7)نیا ڈالا تھا جو 18 ویں ترمیم میں ختم ہوگیا ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات تکنیکی گنتی کے ذریعے ہوتے ہیں لہذا ہاتھ کھڑے کرکے کیسے 5-7 امیدواروں کو ووٹ دلوائے جاسکتے ہیں ؟ یا جیتنے والے امیدوار کو دیئے گئے ووٹ اگلے امیدوار کو کیسے منتقل ہوسکیں گے ؟ لہذا یہ ایک گورکھ دھندا ہے جس میں حکومت گئی تو پھنس کر رہ جائیگی ۔
پیارے پڑھنے والو!
سینٹ الیکشن میں ہاتھ کھڑنے کرنے کے پیچھے حکومتی منطق پر جب میں نے کھوج کی پتہ چلا کہ یہ پی ڈی ایم یا اپوزیشن سے بچنے کیلئے نہیں ہے بلکہ خود حکومت کی فیور میں ہے اور اسکی بنیادی وجہ جہانگیر ترین کیساتھ ہونیوالی لڑائی اور کچی پکی صلح ہے حکومت یا اسکو چلانے والوں کو خطرہ ہے کہ اگر خفیہ بیلٹنگ ہوئی تو ممکن ہے جہانگیر ترین کے "گھوڑے” کوئی کام نہ دکھلا جائیں، لہذا حکومت اس وقت اپنے اندرونی جھگڑے کو نمٹا نے یا کائونٹر کرنے کیلئے یہ کام کرنے پر مجبور ہے ، دوسری طرف خفیہ ووٹنگ میں تو بہت سارے لوگوں کا کاروبار بھی چھپا ہوا ہے کیا کوئی کھلے عام رائے شماری کی حمایت کرکے اپنے دو چار اور دس کروڑ کی دیہاڑی کو لات مار سکے گا ؟
یہاں سوال یہ ہے کہ اپوزیشن گزشتہ دو سال سے اکنامک وپولٹیکل چارٹر حکومت کیساتھ کرنا چاہتی تھی تو اس میں حکومت نے دیر کیوں کی ؟اگر 2 سال قبل معاشی وسیاسی معاہدہ ہوجاتا تو شاہد معاملات آج بہتر ہوتے ،اس وقت پی ڈی ایم رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے ۔الجریزہ،بی بی سی اور وائس آف امریکہ جیسے غیر جانبدار میڈیا گروپوں نے اپوزیشن کے جلسوں کو کامیاب ترین کہا ہے ۔ایسے میں حکومت کے پاس اپوزیشن کیساتھ مذاکرات یا بیٹھ کر معاملات حل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ۔ویسے بھی سڑکوں سے شروع ہونیوالی یہ احتجاجی تحریک شاہد کچھ بڑوں کی وجہ سے پارلیمنٹ میں” کچھ لو کچھ دو "یعنی بعض آئینی ، اصلاحاتی معاملات پر طے پاجائیگی، اور یہ عین ممکن ہے کہ مذاکراتی ٹیبل پر بیٹھنے سے قبل پی ٹی آئی کو اس بات پر مجبور کردیا جائے کہ وہ فارن فنڈنگ کیس کو چلنے دے ! اگر فارن فنڈنگ کیس چل پڑتا ہے تو پھر شاہد اپوزیشن حکومت کو کچھ آکسیجن دینے کو تیار ہوجائے ،یہ بھی درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن میں کسی لیول پہ بات چیت ہورہی ہے
پیارے پڑھنے والو!
پاکستان تحریک انصاف ، وزیراعظم عمران خان پر اس لئے بھی بات چیت اور معاملات کو سنبھالنے کیلئے زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ حکومت ان کی ہے ،اگر 23 مارچ 1973 کے قتل وقتال کے بعد بھی 10 اپریل 1973 کو تمام سیاسی جماعتیں رنجشیں بھلا کر منقفہ آئین لاسکتی ہیں تو پھر اس ملک کو چلانے کیلئے شخصی ٹکرائو ، ماڈل ٹائون ، بی آر ٹی ،بلین ٹری سونامی گھپلوں،آر ٹی ایس کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ایک قابل عمل راہ کیوں نہیں اپنائی جاسکتی ؟
ہاں اس کیلئے تمام اداروں کو اس پر کام کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو وہ سسٹم دیں کہ اگر کوئی ہار گیا یا جیت گیا تو اس امیدوار کو یقین ہوکہ "گنتی تو کم از کم ٹھیک ٹھیک ہوئی” یقینا اس کیلئے عمران خان کو بڑا بننا ہوگا اور ملک کو آگے لیکر چلنا ہوگا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button