اہم خبر

پتے اور گردے میں پتھری، وجوہات، علاج اور احتیاط

’’ڈاکٹر صاحب مجھے پیٹ کی داہنی طرف اوپر کی طرف درد ہے۔ پیٹ ہر وقت پھولا سا رہتا ہے۔‘‘

اکثر ایک چالیس سالہ دیکھنے میں صحت مند اور موٹی صاف رنگ کی عورت اس تکلیف کے ساتھ علاج کے لیے آتی ہے۔ ایسا پتہ کی سوزش میں ہوتا ہے جو زیادہ تر اس میں پتھری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

پتہ ناشپاتی کی طرح کا 7.5 سینٹی میٹر سے 12 سینٹی میٹر لمبا ایک تھیلی نما جزو بدن ہے جو جگر کے اندرونی حصے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔

پتہ کا کام Bile یا صفرا کا جمع کرنا ہوتا ہے جو چکنائی وغیرہ کے ہضم ہونے میں مدد کرتا ہے۔ صفرا یا Bile جگر سے پتہ میں جا کر جمع ہوتا ہے۔ صفرا میں 97 فیصد پانی 1 سے 2 فیصد نمکیات اور 1 فیصد پگمنٹ اور باقی چربی ہوتی ہے۔

پتے کی پتھری کیسے بنتی ہے؟

Bile پتے میں جمع ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں پانی وغیرہ بھی خارج کرتا ہے جب اس میں سے پانی اور دوسرے اجزاء خارج ہو جائیں تو پھر یہی Bile پہلے ریت میں بدلتا ہے جو جمع ہو کر پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

پتہ کی پتھری کولیسٹرول کی بھی ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ زیادہ تر پتھریاں کولیسٹرول، کیلشیم کاربونیٹ، کیلشیم پالمیٹیٹ اور پروٹین وغیرہ پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔

پتہ کے بعض پتھر کیلشیم بلی روبینٹ (Calcium Bilirubinate) پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چھوٹے، سیاہ رنگ کے اور تعداد میں کافی زیادہ ہوتے ہیں۔

علامات

پتہ کی پتھری سے زیادہ تر 40 سال سے زیادہ عمر کی صحت مند، موٹی، سفید رنگت اور زیادہ بچوں والی عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں میں بھی یہ بیماری عام پائی جاتی ہیں۔

جب ’’پتھر‘‘ پتہ میں جمع ہو جائیں تو پھر یہ جمع ہو کر اس کے ساتھ کی نالی Bile duct میں پھنس جاتے ہیں جس سے پیٹ کے اوپر داہنی طرف سخت درد محسوس ہوتا ہے۔ درد کے ساتھ ساتھ جی متلاتا ہے۔ پیٹ پھول جاتا ہے۔ درد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا ہے۔ بعد میں یہ بہت شدید ہو جاتا ہے۔ درد کے ساتھ انفیکشن کی وجہ سے بخار ہو سکتا ہے۔ اگر زیادہ چربی والی غذا مثلاً پراٹھا وغیرہ کھایا جائے تو درد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پیٹ پھول کر کپا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ڈکار وغیرہ بھی آتے ہیں اور پیٹ میں جلن محسوس ہوتی ہے۔

تشخیص

بیماری کی علامات ہونے کی صورت میں پیٹ کا ایکسرے اور الٹرا سونوگرافی وغیرہ سے پتہ میں پتھری کی موجودگی یا غیر موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

بیماری کا علاج اور بچاؤ

اچانک اٹھنے والی پیٹ کی درد کی وجہ پتھری کے علاوہ انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔ ابتداء میں بیماری کا علاج علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بیماری پرانی ہونے کی صورت میں سرجری کے ذریعے پتہ کو نکال دیا جاتا ہے۔ آج کل پتہ کی پتھری کا علاج لیپروسکوپک سرجری کے ذریعے بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے پتے کی پتھری کو شعاعوں کے ذریعے بھی توڑا جا سکتا ہے۔ بیماری سے بچاؤ کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کریں۔

-1موٹاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ زیادہ کھانے سے بندہ نہ صرف موٹا ہوتا ہے بلکہ بیماریوں کا بھی آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے آپ کو سمارٹ اور چاک و چوبند رکھے جس کے لیے سادہ غذا کا استعمال بنیادی شرط ہے۔

-2زیادہ گھی والی اور ثقیل غذاؤں سے پرہیز کریں۔ ’’پتہ کی پتھری‘‘ والے مریضوں کو تو ایسی غذاؤں سے بالکل دور بھاگنا چاہیے۔

-3خوراک میں کولیسٹرول کی زیادہ موجودگی سے بھی پتے کی ’’پتھری کا امکان‘‘ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ایسی تمام اشیاء جن میں زیادہ کولیسٹرول ہو مثلاً چاکلیٹ، انڈے، کریم، پنیر، برین مصالحہ، گردے کپورے اور سری پائے وغیرہ سے مکمل پرہیز کیا جائے۔

-4سادہ غذا کے ساتھ روزانہ اور باقاعدہ ورزش کریں۔

گردے کی پتھری

انسانی جسم میں پیٹ کے نچلے حصے میں ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں دو گردے ہوتے ہیں دایاں گردہ بائیں گردے سے تھوڑا سا آگے کی طرف ہوتا ہے۔

گردہ شکل میں لوبیے کے بیج سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے باہر کی سطح ابھری ہوئی ہوتی ہے اور اندرونی سطح پچکی ہوئی ہوتی ہے۔ اندرونی سطح سے ایک باریک سی نالی نکلتی ہے جو پچھلی طرف جا کر مثانے میں کھلتی ہے۔ اس طرح دونوں گردوں سے دو نالیاں مثانے میں کھل جاتی ہیں۔ ان نالیوں کو یوریٹر کہتے ہیں۔ مثانے سے ایک ٹیوب نکلتی ہے جس کے ذریعے پیشاب جسم سے خارج ہوتا ہے۔ اس کو یوریتھرا کہتے ہیں۔

’’پتھری‘‘ کیا، کیوں اور کیسے؟

گردوں کا اہم کام خون سے یوریا، یورک ایسڈ جیسے بیکار مادوں کو خارج کرنا ہے۔ اس کے علاوہ گردے خون کی ترکیب کو مستقل رکھنے کے لیے اس میں سے سوڈیم کلورائیڈ، پوٹاشیم، کیلشیم سلفیٹ اور فاسفیٹ جیسے نمکیات کی زیادتی کو کم کرتے ہیں۔ نامیاتی او رغیر نامیاتی مرکبات پانی میں حل ہو کر بادامی رنگ کا پیشاب بنا دیتے ہیں۔

اب بعض اوقات خوراک میں کیلشیم وغیرہ والی چیزوں کی زیادتی، گردے کی بیماری اور پانی کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ چیزیں گردے، یوریٹر یا مثانے میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور مجتمع ہو کر چھوٹے چھوٹے پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ گردے کی پتھری کی عموماً تین اقسام سادہ، مرکب اور پیچیدہ پائی جاتی ہیں۔ کیمیائی اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے عموماً یہ مندرجہ ذیل چیزوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔

کیلشیم آگذالیٹ اور فاسفیٹ، یوریا، یورک ایسڈ، میگنیشیم وغیرہ۔

علامات

’’فاسفیٹ‘‘ والی پتھری بعض اوقات سال ہا سال خاموش رہتی ہے مگر اندر ہی اندر یہ اپنے تباہی کے عمل میں مصروف رہتی ہے اور آتش فشاں کی صورت میں گردے کی ناکامی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔

’’گردے کی پتھری‘‘ سے متاثرین زیادہ تر 30 سال سے 50 سال کی عمر میں آتے ہیں۔ بیماری کا تناسب مرد اور عورت میں 3:4 ہے۔ یہ مرض موروثی بھی ہو سکتا ہے۔ 75 فیصد سے زیادہ کیسوں میں درد سب سے بڑی علامت ہے۔ گردے کا درد انتہائی تکلیف دہ اور تڑپا دینے والا ہوتا ہے۔

عموماً درد کمر کے نچلے حصے سے شروع ہو کر آگے کی طرف آتا ہے۔ مریض درد سے دہرا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سخت قسم کی متلی ہوتی ہے۔ سر چکرانے لگتا ہے اور قے بھی آ جاتی ہے۔ نبض کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پیشاب میں خون اور پیپ بھی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

اگر کسی کو ان علامات میں سے کوئی بھی ہو تو فوراً اچھی لیبارٹری سے پیشاب ٹیسٹ کروانا چاہیے اور اس کے ساتھ X-Ray اور IVP کروا کر گردہ کی بیماری کے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔

علاج

گردہ کی پتھری ایک جان لیوا مرض ہے۔ اس کا بہترین علاج آپریشن تجویز کیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کے علاج کے لیے نت نئی آسان تراکیب استعمال کی جا رہی ہیں۔

شعاعوں کے ذریعے علاج

اس سلسلے میں ایک نئی اور جدید ترین ایجاد لیتھوٹریپسی مشین ہے جس میں شاک دیوز شعاعوں کے ذریعے گردہ کی پتھری کو توڑا جاتا ہے۔

اس مشین میں الٹرا ساؤنڈ فریکوئنسی والی شعاعیں کافی طاقت کے ساتھ گردے کی پتھری کو توڑتی ہیں۔ شعاعوں سے پتھر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد مریض کو بہت سا Fluid دیا جاتا ہے جس کی مدد سے یہ ریزے پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتے ہیں۔

’’پتھری کے بعد‘‘

ایک مشہور سرجن کا قول ہے کہ ’’میں نے گردے سے پتھری نکال دی ہے مگر مریض کو ٹھیک خدا کرے گا۔‘‘

اصل میں ایک دفعہ آپریشن یا شعاعوں کے ذریعے علاج سے آدمی کی جان پتھری سے مکمل طور پر نہیں چھوٹتی بلکہ ہر وقت اس کے دوبارہ جنم لینے کا احتمال رہتا ہے۔

٭        پتھری کے بعد ہمیشہ خوراک میں مائع مشروبات کا استعمال زیادہ کر دیں۔ پانی زیادہ سے زیادہ پئیں۔

٭        کیلشیم والی اشیاء کا استعمال کم سے کم کر دیں۔

٭        اس کے علاوہ لال گوشت، مچھلی، اوجھڑی وغیرہ سے پرہیز کریں۔

٭        علاوہ ازیں پھلوں مثلاً آلو بخارا، الیچی اور پالک اور سفید مولی کا استعمال بھی گھٹا دینا چاہیے۔

٭        مشروبات مثلاً چائے، کافی، کولا ڈرنکس وغیرہ بھی کم سے کم استعمال کریں۔

٭        اس کے علاوہ ذرا بھی کوئی پیشاب کی تکلیف ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

گردے کی پتھری اور بیماریوں میں دواؤں کا استعمال

پیشاب کا زیادہ یا کم آنا یا اس کا رک جانا مختلف بیماریوں کی صورت میں یا گردہ اور مثانہ کی تکالیف کی و جہ سے ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ تکالیف مختلف بیماریوں میں بھی ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات مرضی سے دوائیاں لینے سے بھی اس طرح کی علامات جنم لے لیتی ہیں۔ اکثر اوقات بچوں میں بہت تنگ پاجامہ یا زیر جامہ وغیرہ پہنانے سے بھی ان کا پیشاب رک جاتا ہے۔ شوگر کی بیماری میں بھی پیشاب زیادہ آتا ہے ہے۔ اس کے علاوہ پراسٹیٹ گلینڈ بڑھنے سے پیشاب میں رکاوٹ ہو جاتی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر کسی قسم کی دوا شروع کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پیشاب کی تکلیف کی اصل وجہ کیا ہے اصل وجہ جاننے کے بعد ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج شروع کیا جا سکتا ہے۔

آسان اور متبادل علاج

گردے اور مثانے کی تکالیف میں مندرجہ ذیل آسان گھریلو نسخوں پر عمل کریں۔

٭        اگر کبھی چھوٹے بچے پیشاب میں رکاوٹ کی شکایت کریں تو سب سے پہلے ان کا لباس چیک کریں کہ وہ زیادہ تنگ تو نہیں۔ اس کے بعد پیٹ پہ ہلکا سا مساج کریں اور پیشاب والی جگہ تھوڑا سا نیم گرم پانی ڈالیں۔ خودبخود پیشاب آ جائے گا۔

٭        جن بچوں کو بستر پر پیشاب کرنے کی عادت ہو انہیں رات سونے سے پہلے پینے والی اشیاء نہ دیں اور سونے سے پہلے ایک چمچ شہد اور اس میں دو کالی مرچ کے دانے پیس کر روزانہ پندرہ دن کے لیے دیں۔ ان شاء اللہ افاقہ ہوگا۔

٭        پیشاب بند ہونے کی صورت یا پیشاب میں جلن ہونے کی صورت میں پینے و الی اشیاء مثلاً کچی لسی، تازہ پانی، جوس وغیرہ زیادہ استعمال کریں۔ تربوز، موسمی پھل، کینو، سنگترہ، میٹھے، خربوزہ، کھیرا، ککڑی، انار، گنے کا رس، گنڈیریاں وغیرہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ یہ سب چیزیں پیشاب آور ہوتی ہیں اور ان کے کھانے سے بعض اوقات گردوں کی پتھری بھی نکل آتی ہے اور پیشاب کی نالی بھی صاف ہو جاتی ہے اس کے علاوہ تھوڑے سے چنے بھون کر ان میں دو چمچ شکر ڈال کر ناشتہ میں استعمال کرنے سے پیشاب میں رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔

٭        مٹی کے گھڑے میں چار گلاس پانی ڈال کر رات کو صحن میں رکھ دیں اور صبح اٹھتے ہی نہار منہ چار گلاس پانی پئیں۔ ان شاء اللہ معدے اور گردے کی تکالیف سے افاقہ ہوگا۔

٭        گردے کی درد کی صورت میں خربوزہ اور تربوز کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس کے علاوہ فالسہ کا شربت بھی استعمال کریں۔

٭        تین اخروٹ 10کشمش کے دانے لے کر انہیں دودھ میں ملا کر ایک پیسٹ بنا لیں اور اسے ہر رات سونے سے پہلے استعمال کریں۔ اس سے پیشاب رات کو بار بار تنگ نہیں کرے گا۔

٭        کھانے کے بعد ایک دو الائچی ضرور کھائیں۔

٭        پیشاب میں پروٹین آ رہی ہو تو ایک کپ پانی میں ایک چمچ پسی ہوئی دار چینی ڈال کر قہوہ بنالیں اور ایک بڑا چمچ شہد ڈال کر نہار منہ استعمال کریں۔

٭        پراسٹیٹ گلینڈ بڑھنے کی صورت میں مندرجہ ذیل شیڈول پر عمل کریں۔

صبح سویرے:

صبح سویرے اٹھیں۔ نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کریں۔ نہار منہ رات بھر مٹی کے گھڑے میں رکھا ہوا چار گلاس پانی پئیں اور صبح کی سیر کے لیے نکل جائیں۔

ناشتہ:

ناشتے میں تازہ پھل اور جوس استعمال کریں۔

دوپہر کا کھانا:

سبز پتوں والی سبزیوں کے ساتھ سلاد کا زیادہ استعمال کریں گوشت وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔

رات کا کھانا:

رات کا کھانا ہلکا پھلکا ہونا چاہیے۔ رات کے کھانے میں سبزیاں، سوپ، سلاد شامل کریں۔

چائے اور مشروب:

کھانوں کے وقفوں کے دوران زیادہ چائے نہ لیں۔ سگریٹ نوشی کو خیرباد کہہ دیں۔ کیفین والی اشیاء مثلاً کافی اور کولا ڈرنکس سے پرہیز کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button