تحریر :عطیہ ظفر
سوشل میڈیا کا لفظ سنتے ہی چند چیزیں فورا ذہن میں آتیں ہیں مثلا فیس بک، واٹس ایپ، یو ٹیوب، گوگل وغیرہ وغیرہ ہیں سوشل میڈیا سے ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں جن سے ہماری زندگیاں آسان ہو گئیں ہیں ایک وقت تھا کہ خاندان کا کوئی فرد اگر بیرون ملک مقیم ہوتا تو گھر والے اس کی شکل دیکھنے کو ترستے تھے اور خیر خیریت بھی خطو خطابت کے ذریعے ہوتی جس میں مہینوں لگ جاتے تھے میڈیا نے اس میں آسانی پیدا کی تعلیم کے نئے نئے طریقے گھر بیٹھے سیکھنے کو ملتے ہیں جہاں پہلے معلومات کےلیے کتابوں کو کھنگالنا پڑتا تھا اب ایک ہی کلک پر ساری معلومات آپ کے سامنے آجاتیں ہیں ہر شعبے میں رہنمائی مل جاتی ہے جو لوگ کتابیں خرید نہیں سکتے وہ اسی میڈیا کے ذریعے پڑھ سکتے ہیں اسی کے ذریعے اکثر حضرات نے ایک اچھی باورچن کی طرح کھانا بنانا بھی سیکھا، تجارت کےلیے بہت سی معلومات مل جاتیں ہیں گوکہ میڈیا ہماری زندگیوں میں بہت تیزی سے رچ بس رہا ہے ہر چیز میں زیادتی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اسی طرح اس کازیادہ استعمال نقصان کا باعث بنتا جارہا ہے میڈیا میں درج بالا تمام ذرائع سے جو نقصان ہوتا ہے اس میں سب سے پہلا نقصان ہمارے وقت کا برباد ہونا ہے زندگی وقت کا نام ہے انسان کی پیدائش سے لے کر موت کے وقت کا جو زمانہ ہے یہی وہ اوقات ہیں جن کو استعمال کرکے انسان اللہ کا مقرب بنتا اور وقت کا غلط استعمال ہی انسان کو جسارے میں ڈال سکتاہے اللہ نے جب قرآن مجید میں انسان کی ناکامی کا ذکر کیا تو قسم وقت کی کھائی مومن وہ جس کے تمام اوقات ہر حال میں اطاعت کےلیے استعمال ہوتے ہیں، ہماری عبادات میں خلل کی ایک بہت بڑی وجہ ہی موبائل ہے جس کو نمازوں پر ترجیح دی جارہی ہے ،نفع بخش علم سے دور ہو رہے ہیں، عائلی زندگیوں میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بچے والدین سےاور والدین بچوں سے دور ہو رہے ہیں، فیس بک پر عورتوں اور مردوں کے تعلقات قائم ہوریے ہیں دوستیاں کیں جارہی ہیں اسی میں تصویر کے مطالبات کیے جاتے ہیں گویا کہ دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کو ہم نے خد ہی بدنام کر دیا جس کے بارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’ غریب ہےغریب وہ شخص جس کا کوئی دوست نہیں،،اسی وجہ سے دس میں سے پانچ فیصد لوگ طلاق دینے اور لینے کا باعث بن رہے ہیں، بلا تحقیق خبروں کو پھیلایا جارہا ہے بغیر سوچے سمجھے معتبر اور غیر معتبر غلط اور صحیح خبر کو اگے پہنچایا جارہا ہے ہمارے علما اور آئمہ کے متعلق غلط چیزیں پھیل رہی ہیں بلخصوص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے منسوب اقوال کا زیادہ ذکر ہوتا اسی طرح کی خبروں کے پھیلانے والوں کے بارے میں قرآن مجید ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو دانستہ نقصان پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو،، وقت بے وقت کی تصویر اور سلفیاں لینا اور آگے فارورڈ کرنا ایک معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے حلانکہ حدیث قدسی ہے کہ ’’اس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جومیری صفت خالقیت میں شریک ہو،،معلوم ہوا کہ تصویر بنانے میں اللہ کی خالقیت میں شریک ہو نے کا مظاہرہ ہے،اگر یو ٹیوب کے بارے میں بات کی جائے تو نئے دور کے نئے رنگ جدید دور کے جدید تقاضے ہیں اس یو ٹیوب نے تو ہمارے معاشرے میں ایمان ،اخلاق ،شرم وحیاء اور اسلامی تہذیب آہستہ آہستہ آہستہ رخصت ہورہا ہے چونکہ اس وقت سوشل میڈیا کسی بھی ریاست میں بطور چھوتھے ستون کی طرح کام کرتا ہے اسلیے اسکو غلط راستوں میں استعمال ہونے سے ہم نے بچانا ہے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پہچا دو اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو،،(بخاری)تو ہم اسی میڈیا کو ٹول کی طرح سمجھے ہوئے اپنے دین کی اشاعت کام کرنے والے ہوں پوری دنیا میں بہت سے لوگ اپنی اپنی فیلڈ میں سوشل میڈیا سے فوائد حاصل کر ریے ہیں لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس سے مستفید نہیں ہو رہا ہے زندہ قومیں ہمیشہ زندہ اور مردہ قومیں ہمیشہ مردہ ہوتیں ہیں -اگر ہم سوچیں کہ بحیثیت مسلم ہم میڈیا کو کس طرح سے استمعال کررہے ہیں سیرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے ہے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس زمانے میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دعوت کاکام انجام دیا اس زمانے میں بہترین ذرائع اوقاف کے میلوں میں جاکر، خاندان کے افراد کو کھانے پر بلا کر،صفہ کی پہاڑی پر چھڑھ کو بلاتے اس وقت یہ بہت بڑا ذریعہ تھا اور آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ذمداریوں کو سمجھنے اور پورا کریں جو اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے اللہ نے ہم پر عائد کیں ہیں