” بندے سے ،” اللہ کا بندہ ”
خالق کائنات کی تلاش کے علاوہ بھی ،انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے انسان میں انسانیت کا ہونا ناگزیر ھے یہ انسانیت نہ آئے تو پچاس سالوں میں بھی نہ آئے اور آنے لگے تو پچاس سیکنڈ میں آجائے –
بظاہر تو ہم سارے ہی انسان دیکھائی دیتے ہیں ، تاہم انسانیت سب میں ہوتی ھے نہ دیکھائی دیتی ھے
انسان سے انسانیت ، انسانیت سےخدمت انسانیت اور پھر خدمت انسانیت ، انسان کو بندے سے” اللہ کا بندہ ” بناتی ھے
وہ لوگ جو انسانی معاشرے کو چھوڑ کر ، یا انسان سے منہ موڑ کر خدا کی تلاش کرتے ہیں کامیاب نہیں ہو سکتے –
کتاب ہدایت بھی انسانوں کے
تذکرے اور جزا ، سزا کے بارے میں آگاہی دینے والی ہی توھے یہ بھی سند ھے کہ انسانی معاشرے میں رہ کر فرشتوں جیسی توقعات ذہنی امراض کا باعث بن سکتیں ہیں
اللہ کی خوشنودی انسانوں کی خدمت میں ھے
اللہ کا حکم ھے کہ
انسانوں کی خدمت کرو ، بھوکوں کو کھانا کھلاو ،
یتیم کا مال ہرگز نہ کھاو ، نیکی کے کاموں میں کیے ھوئے وعدے پورے کرو ،
نیک مزاج اور نرل دل ھو جاو ،
انسان کا مقام یہی ھے کہ اسے "احسن تقویم ” بنایا گیا
انسانوں کی تذلیل سے اللہ ناراض ھوتا ھے اور کسی انسان کی حق تلفی اللہ کریم کو پسند نہیں ھے –
جو زمانہ اللہ کی منشاء کے مطابق ہوتا ھے وہی انسان کی سرفرازی کا دور ہوتا ھے
انسانیت کی عزت و خدمت ہی اللہ کے احکام کی بجاآوری ھے
” نیکی ” دراصل انسانوں کے ساتھ نیک سلوک کا نام ھے اور بری و شیطانی خواہشات کی تکمیل نہ صرف برائی بلکہ گناہ کبیرہ ھے –
اللہ والے نیکی انسان کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کا انعام اللہ تعالی سے پاتے ہیں ،
دنیادار اپنے کیے کا بدلہ انسانوں سے چاہتے ہیں یہ سوچ نہ صرف لالچ و برائی کو فروغ دیتی ھے بلکہ نیکی کو بدی میں تبدیل کر دیتی ھے
اللہ والے غریب کی خدمت سے ” سخی ” کی منزل پاتے ہیں
غریب انسان ایک لحاظ سے معاشرے کا ” محسن ” ھے
کہ وہ لوگوں کو سخی ہونے کا موقع دیتا ھے تو دوسری طرف غربت بہت بڑی آزمائش بھی ھے غربت بعض اوقات کردار ، ایمان زندگی سب کچھ کھا جاتی ھے
اگر انسان کا اللہ سے رجوع ، اور خدمت انسانیت سے آگاہی ہو جائے تو لوگ غریبوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی خدمت کریں –
عبادت انسان اپنے لیے ، اپنی آخرت کے لئے کرتا ھے لہذا عبادت اس مقام پر نہیں پہنچا سکتی ، یہاں خدمت انسانیت اور بلخصوص غریب کی خدمت پہنچاتی ھے
اللہ کریم نے زکوت کا حکم دیا "غریب کے لیے” اللہ کے پاس زمین و آسمان کے خزانے ہیں وہ خود عطا کر سکتا ھے
اس میں آزمائش ھے مال و دولت سے انسان میں سنگدلی پیدا ہوتی ھے اور زکوت ، خیرات اور صدقات سے فراخ دلی ۔۔۔۔ !
نظام زکوت ، خیرات ، صدقات اور بیت المال سب غریبوں کے لئے ھے تاکہ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو بھی ساتھ چلایا جائے ورنہ اس چند روزہ زندگی میں سفر تو سب کا کٹ ہی جائیگا
مگر وہ ذات آزمائش کر رہی ھے کہ کون کون میرے بندوں کی خدمت سے میرا بندہ بلکہ میرا دوست بنتا ھے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے ، اللہ کی یاد اور خوف میں دنیا کی لذتوں کو چھوڑنے والے سب اللہ کے مظاہر ہیں ان مقامات سے گزرے بغیر توحید و رسالت
کے سفر کا آغاز بھی ممکن نہیں ھے
کوئی اس قانون قدرت اور حقیقت سے انکار کر سکتا ھے کہ تم ” زمین پر رہنے والوں کا خیال رکھو ، آسمان والا تمہارا خیال رکھے گا ”
"اللہ سے محبت کرنے والے انسانوں سے بیزار نہیں ہو سکتے اور انسان سے بیزار ہونے والے اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے”
انسان سے بیزاری غرور و تکبر ھے شیطان نے انسان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ، تو
اللہ کو کیے ہوئے سجدے بھی رائیگاں ہو گئے مسلم انسانی معاشرے کا سارا نظام اجتماعی ھے دعائیں بھی اجتماعی ہی ہیں
"اے ہمارے رب ہم پر رحم فرما ، ہمیں سیدھی راہ دکھا ،
ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال ، ہمیں گناہوں سے بچا ”
گویا ثابت ہوا کہ منشائے الہی یہی ھے کہ "میں” سے
” ہم ” بنا جائے اور یہ انسانوں سے محبت اور خدمت انسانیت سے ہی ممکن ھے –
تاہم اس خدمت و محبت سے مراد یہ تھوڑی ھے کہ لوگوں کی عزت نفس اور پاکدامنی کو پامال کیا جائے –
کہتے ہیں کہ ایک دنیادار کسی پیارے سے تلخ کلامی ہو جانے پر ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ پڑا تو راستے میں ایک اللہ والے سے ملاقات ہو گئی تو اللہ کے بندے نے پوچھا۔ بیٹا اداس و پریشان لگ رہے ہو خیریت تو ھے ۔۔۔۔ ؟
فقیر کی یہ بات سن کر دنیادار بندے نے اپنوں کی شکایات کا دفتر کھول دیا۔ فقیر بابا زیر لب مسکرایا بولا :
بھولے بادشاہ آ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ بندے سے اللہ کا بندہ بننے ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
اور کہا :
ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸات و توقعات ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ –
دنیادار سے وفا و صلے کی توقع نہ کرو –
ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ، ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ –
ﺟﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ –
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ –
دنیا کی لذتوں اور ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ –
ﺟﺴﮯﺧﺪﺍﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ –
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ھے ، ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ، ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ –
برے دوست اور ان کی صحبت ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ھے –
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ دنیادار بندوں کی بجائے "اللہ کے بندوں” کی تلاش میں ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ-
ﺧﻮﺷﯽ تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں ھے زیادہ کمانے اور جمع کرنے میں نہیں –
غریبوں اور حقداروں ﮐا حق ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎو ﮔﮯ-
ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎو ﮔﮯ یا پھر ایک چور تمہارے اندر بیٹھ جائے گا –
ﺳﺎﺩﮬﻮﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ – بد کردار ، جھوٹے اور مکار انسان کی دوستی اور صحبت اللہ کی ناراضگی کا باعث بنے گی –
وہ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ چیزوں سے برکت اور ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ –
ﺗﻢ جب اولاد ، ﻋﺰﯾﺰ ﺭﺷﺘ ﺩﺍﺭﻭﮞ ‘ ﺍﻭﺭ مخلص ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ ، ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ھے ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ اللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ھے –
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﺴﯽ مخلص و نیک سیرت انسان ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ –
ﺍﻭﺭ یاد ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ بری صحبت والا دوست ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ، ﻣﮕﺮﺟﻮ نیک سیرت ﻭﺍﭘﺲﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ، ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ،
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ھے کہ
ﺍﻟﻠﮧ بذریعہ توبہ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ھے اور اللہ کے بندے بھی ۔۔۔۔ !
بندے ﺳﮯ اللہ کا ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ یہی نسخہ ء کیمیاء ھے
0 1 5 minutes read