کونین / محمدناصراقبال خان
قیادت ،اِنصاف،اوصاف، شعور، ضمیر ، کردار، حقوق، اتحاد ،احساس ،اصول، خودمختاری ،خودانحصاری اورخودداری سے محروم معاشرے بانجھ ہوجاتے ہیں اوروہاں ہرکمزور کی” زندگی” طاقتور کے ہاتھوں” درندگی” کانشانہ بن جاتی ہے۔خادم کے نام پرمخدوم جبکہ صادق وامین کی آڑ میں کذاب اورچور منتخب کرنیوالے ووٹر بھی یقینا چوری میں ملوث ہیں ،روزمحشر چور اور ان کے حامی ووٹر بھی جوابدہ ہوں گے۔سفارشی کلچر کرپشن کلچر سے زیادہ بدتر ہے۔ اپنے یااپنوں کے مفادات کیلئے میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے والے قابلیت کے قاتل ہیں،کپتان نے تخت لاہور عثمان بزدار کے سپردکرکے میرٹ کاجومعیارمقررکیا اس کاخمیازہ پوراپنجاب بھگت رہا ہے ۔”تاریک "انصاف کے دورمیں بیمار صحت کی سہولیات ،نادار بنیادی ضروریات جبکہ سائل انصاف سے محروم ہیں، اداروں سے میرٹ کاجنازہ اٹھ گیا ہے۔20ویں گریڈ کے منجھے ہوئے ڈی جی پی آر اسلم ڈوگرجواپنے منصب سے انصاف کررہے تھے ، انہیں ہٹاکروہاں19ویں گریڈ کی ناتجربہ کارخاتون ثمن رائے کاتقررکردیا گیا اوراب اسلم ڈوگر سینئر ہوتے ہوئے بھی اپنی جونیئر ثمن رائے کے ماتحت کام کریں گے،اس قسم کی انتظامی بلکہ انتقامی سوچ اور ناپسندیدہ کرداروں کے منفی ارادوں نے اداروں کابیڑا غرق کردیا ۔حکومت اسلم ڈوگر کودوبارہ ڈی جی پی آر مقررکرے یا پھرمنصب کیلئے ہرسطح پر میرٹ کاباب بندکردیا جائے ۔کپتان کولگتا ہے جس طرح عبدالعلیم خان اور میاں اسلم اقبال زیرتربیت عثمان بزدار کے ماتحت کام کررہے ہیں اس طرح سرکاری اداروں میں بھی اب سینئرزحکام خوشی خوشی اپنے جونیئرز کے ماتحت کام کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوگاکیونکہ اس طرح اداروں کی مجموعی کارگزاری مزید متاثر ہوگی ۔دھت حکومت اصلاحات نہیں کرسکتی لہٰذاءکپتان اندھادھند تبادلے کرتے چلے جارہے ہیں۔وزیراعظم کی مرضی ومنشاءکے بغیر پنجاب میں پتا بھی نہیں ہلتا ۔وفاق سے پنجاب تک ہرایک ٹرانسفر اورتقرری کپتان کے فرمان سے ہوتی ہے ۔تبادلے سرکار کوریاستی نظام سمیت تھانہ کلچر کی تبدیلی سے کوئی سروکار نہیں، پولیس میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ نے اس محکمہ کو منتشر کردیا ہے ۔ کپتان کی "تبادلے سرکار” کے سواکوئی” تبدیلی "کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔کپتان کی زبان بہت چلتی ہے اس کے پاس بے سروپا باتوں کے سواکچھ نہیں۔
انتہائی پروفیشنل ، زیرک ،نیک نیت اورنیک نام اشفاق احمدخان کولاہورمیں پیشہ ورانہ انداز سے ڈیلیورکرنے کے باوجود تبدیل کردیا گیا،لاہورپولیس کے” سنجیدہ” آفیسرز اور اہلکار اشفاق احمدخان کی ٹرانسفر پر”رنجیدہ” ہیں۔ایک طویل مدت کے بعد لاہورکو اشفاق احمدخان کی صورت میں ایک انتھک اور عزت دار آفیسر نصیب ہوا تھا جوکپتان نے چھین لیا۔ سی سی پی اولاہورغلام محمودڈوگر اورڈی آئی جی اشفاق احمدخان کے درمیان آئیڈیل انڈراسٹینڈنگ سے یقینا لاہورپولیس کامورال ٹیک آف کرجاتا اوران دونوں کی اصلاحات سے لاہورپولیس کانیادورشروع ہوتا۔میں وثوق سے کہتا ہوں غلام محمودڈوگراوراشفاق احمدخان کی پارٹنر شپ اورلیڈرشپ میں لاہور پولیس کے اہلکار شرپسندوں کے ساتھ ہر مقابلہ جیب جاتے۔اشفاق احمدخان کادوران تقرری شہریوں سمیت اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کی عزت نفس کاخیال رکھنا اورانہیں عزت دینا اُن کاطرہّ امتیاز ہے ۔اشفاق احمدخان لاہورپولیس کی”اصلاح”اور” فلاح ” کے جس تعمیری ایجنڈے پرکام کررہے تھے امید ہے وہ ان کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اشفاق احمدخان،شہزادہ سلطان ،طارق عباس قریشی اوروسیم احمدخان سمیت حالیہ تبدیل ہونیوالے ڈی آئی جی حضرات میں سے کسی ایک کو بھی اپنی تقرری کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔حکمران خود تواپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسروں کی "مدت” کو "عدت” بنادیاجاتا ہے ۔ "تاریک” انصاف نے انصاف اورسیاسی وانتظامی تقرریوں کاجومعیارمقررکیا ہے وہ ریاست کوراس نہیں آیا۔ اِنصاف کاتعلیم نہیں اوصاف سے تعلق ہے ،جس انسان میں” اوصاف” نہ ہوں وہ” اِنصاف” نہیں کرسکتا۔منصف بھی اندرسے مصنف ہوتے ہیں اور ان کا ہرفیصلہ بولتا ہے ۔اگرکمزورسے تنقید اوراحتجاج کا حق چھین لیاجائے تواس کی خاموشی بددعا بن جاتی ہے۔شہرخموشاں میں جانے تک بولنا ہرانسان کابنیادی حق ہے جوسلب نہیں کیا جاسکتا۔عمران خان” میدان” سے "ایوان” میں آ نے کے باوجود ایک منتظم کے اوصاف سے محروم ہیں لہٰذاءوہ انصاف اورڈیلیور نہیں کرسکتے ۔
کپتان نے نیاپاکستان بنا نے کی آڑ میں ہم سے ہمارے قائد ؒ اورباپ دادا کاپراناپاکستان بھی چھین لیا ۔کپتان کو مہنگائی ،بیروزگاری اورکرپشن سے بوجھل نیاپاکستان مبارک ،وہ ہمیں ہماراپراناپاکستان واپس کردے ۔تبدیلی سرکار نے جو نام نہادنیا پاکستان بنایا وہاں سیاسی کلچر،نیب کلچر اور تھانہ کلچر تو پرانا ہے اور اب بھی طاقتوراورکمزور کیلئے دومختلف قانون رائج ہیں۔نیب سفیدہاتھی ہے کیونکہ حکام کیس نہیں فیس دیکھتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی کادعویٰ کرنیوالے اناڑی اقتدارمیں آگئے لیکن سائل اب بھی عدل کیلئے ایڑیاں رگڑرہے ہیں جبکہ نیب نے احتساب کومتنازعہ بنادیا۔ووٹ سے ملی عزت کے بل پرحکمران فرعون بن جاتے ہیں جبکہ ووٹرکوانتخابی مہم کے بعد کوئی نہیں پوچھتا۔جس کوووٹ سے عزت ملے وہی ووٹرکوعزت نہیں دیتا۔کپتان سمیت جس کسی کازندگی بھرتھانہ کلچر سے واسطہ نہیں پڑا وہ اسے کیاخاک بدلے گا۔تھانہ میں ڈیوٹی اور ڈیلیور یا وِزٹ کرنے جبکہ وہاں سائل کی حیثیت سے حصول انصاف کیلئے جانے میں زمین آسمان کافرق ہے۔ شہباز "میاں” کی "منشاء”سے پنجاب پولیس کی وردی توبدلی لیکن موصوف نے اس فورس کی صلاحیت ، سمت اور سوچ تبدیل کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ گذشتہ چھ دہائیوں میں جوبھی اقتدارمیں آیا اس نے پولیس کواستعمال اوراس کااستحصال کیا،ہمارے معاشرے کے کئی نام نہادشرفاءپولیس کے بل پربدمعاش بنے ہوئے ہیں،وہ پولیس والے جوکسی کمزوراورمجبور کے” کس بل” نکال دیتے ہیں انہیں حکمرانوں کے روبرو بہت "بے بس” دیکھا ہے۔کوئی فوجی یاسول آمر شہریوں کی” فلاح "کیلئے پولیس فورس کی” اصلاح "نہیں چاہتا۔عام لوگ پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں "ڈنڈا "تودیکھتے ہیں لیکن اس کے پیچھے” ایجنڈا” کس کاہے انہیں علم نہیں ،نتیجتاً ڈنڈابردار نفرت کانشانہ بن جاتے ہیں ۔ کپتا ن کولگتا ہے مسلسل تبادلے کرنے سے تبدیلی آجائے گی۔وزیراعظم کی مداخلت سے ان کے بہنوئی کو تو پلاٹ کا”قبضہ "مل گیا لیکن عام شہریوں کے قیمتی پلاٹ ابھی تک سماج دشمن عناصر کے زیر قبضہ ہیں۔قوم کی بے شمار بیٹیوں کوباپ داداکی جائیداد میں سے شرعی حق نہیں ملتا ۔ بیٹیوں کے حق کی بازیابی کیلئے بھی پولیس کوبراہ راست سخت ایکشن کااختیار دیناہوگا، کیونکہ بیٹیوں کو بے رحم نظام کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔
کسی بکریاں” چرانے” اور”چورانے” والے کوکیاعلم تھانہ کلچر سے نجات کیلئے "اِصلاحات "اور”ترجیحات” کیاہوتی ہیں۔پاکستان کاسیاسی کلچر اورسیاسی طبقہ قومی بحرانوں اورمعاشرتی برائےوں کی روٹ کاز ہے، ان کی آشیرباد کے بغیر کوئی شرپسند سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ عاطف چوہدری توپولیس مقابلے میں ماراگیا لیکن ایک کتب فروش کے فرزند کو ” عاطف چوہدری” بنانے اوراس کے ہاتھوں سے قلم چھین کرہتھیار تھمانے والے کردار آج بھی زندہ ہیں۔کئی "سیاہ -ستدانوں” کے” سیاہ کرتوتوں” کی بدولت ماﺅں کے بیش قیمت لعل مٹی میں مل گئے ۔ہمارا سیاسی کلچرایک ایسابھوت ہے جس کی جان تھانہ کلچر میں ہے۔پاکستان کاطاقتورسیاسی کلچراپنی بقاءکیلئے تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہونے دیتا ۔پولیس فورس "خودمختار”نہیں اسلئے آئی جی سے جوان تک زیادہ تر لوگ "خوددار” نہیں ہے ،یہ آغاز سے انجام تک ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے حکمرانوں اوربااثرسیاستدانوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں۔جس وقت پاک فوج کی طرح ہماری پولیس فورس خودمختار نہیں ہوگی اس وقت تک تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوگا۔میں سمجھتا ہوںرینجرز کی طرز پرپولیس کوبھی پاک فوج کے ماتحت اوران کی مراعات بھی پاک فوج کے برابر کرنے سے یہ محکمہ کرپشن ،گالی گلوچ اورسیاسی مداخلت سمیت دوسری کئی برائیوں سے پاک ہوجائے گا ۔
سیاسی کلچر کاسومنات پاش پاش کئے بغیر ہمارے وردی پوش اورسرفروش اہلکار سیاستدانوں کی غلامی اورضمیر کی نیلامی سے نجات نہیں پاسکتے۔عوام پولیس کو پاک فوج کی طرح پروفیشنل ، سیاسی مداخلت سے پاک اور فرض شناس دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ایک مخصوص سیاسی مافیا افواج کوبھی پولیس کی طرح اپنااطاعت گزاربناناچاہتا ہے۔ہماراسیاسی اور ریاستی نظام عوام کے زخم پرمرہم نہیں رکھ سکتا،کیونکہ "درد” ہرگز "دوا” نہیں ہوسکتی ۔میں پھرکہتاہوں "بلے "بازوں کے” پلے” کچھ نہیں،”تیرانداز” شعبدہ باز ہیں اور”شیر” نے بھی "شر "کے سواکچھ نہیں دیا۔جمہوریت سے نجات اورملک میں صدارتی طرزحکومت تک بحیثیت قوم ہم شاہراہ ترقی پرگامزن نہیں ہوسکتے ۔ سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ پولیس کے اندردوطبقات ہیں جو ایک دوسرے کاوجودتسلیم نہیں کرتے، اِن کے درمیان "فاصلے "ہرانتظامی "فیصلے "پراثراندازہوتے ہیں،اگرپی ایس پی آفیسرزدوسال کیلئے تھانوں میں تعینات ہوں تواس سے وہ تھانہ کلچر کوسمجھ اورپولیس کے دونوں طبقات کے درمیان فاصلے سمٹ سکتے ہیں ۔جو پولیس کے مزاج ،مسائل اورانہیں دستیاب وسائل سے آگاہ ہو وہ نیک نیتی کے ساتھ ان کے رویوں میں بہتری کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ عمران خان بحیثیت کپتان ماہربلے بازاورگیندباز رہاہوگا لیکن وہ ایک اچھا منتظم نہیں کیونکہ جو فطری طورپر "منتقم "ہووہ بہترین "منتظم” نہیں ہوسکتا۔جس کوالفاظ کا”چناﺅ”نہ آتاہووہ پروفیشنل ٹیم ممبرنہیں” چن” سکتا۔فیصلے درست اوردوررس ہوں توفاصلے سمٹ جاتے ہیں،”مقبول” کپتان میں "معقول” فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ۔کپتان نے بھی اپنے پیشروحکمرانوں کی طرح اقتدار کیلئے تھانہ کلچر کی تبدیلی کا ڈھول پیٹا تھاجبکہ اس سلسلہ میں جو اصلاحات ناگزیر ہیں موصوف اپنی ناقص ترجیحات کے سبب وہ نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے کپتان کوانتقامی سیاست نے ہلکان کردیا ۔ حکمران اورسیاستدان یادرکھیںانتقامی سیاست کی کوکھ سے صرف بدانتظامی پیداہوگی ۔