حال ہی میں ایک بٹ کوائن کی قدر حیرت انگیز طور پر 48 ہزار امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ایسا تب ہوا جب الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ٹیسلا نے 1.2 ارب ڈالر مالیت کی یہ کرپٹو کرنسی خرید لی۔
بٹ کوائن کے شوقین کہیں گے کہ یہ درحقیقت نقد پیسوں کا مستقبل ہے۔ لیکن اس غیر مستحکم کرنسی میں تجارت یا سرمایہ کاری کافی پُر خطر ہوسکتی ہے۔
بڑے طاقتور کمپیوٹرز کی مدد نے نئے بٹ کوائنز کی تلاش توانائی کی طلب کو بھی بڑھا رہی ہے جو کہ ماحول کے لیے اچھا نہیں۔
بٹ کوائن کے حوالے سے درج ذیل کچھ حقیقی کہانیاں دی گئی ہیں۔
’میں نے بٹ کوائن کے ذریعے آئس لینڈ میں چھٹیاں منائیں‘
جیمز سائے، ٹیکنالوجی کنسلٹینٹ
میں نے پہلی بار 2017 میں بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی۔ میں کافی محتاط تھا تو میں نے اس میں 500 پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی تھی۔
میں نے انھیں 2500 پاؤنڈ میں فروخت کیا اور آئس لینڈ میں چھٹیاں منائیں۔ یہ پیسے میرے کام آئے۔ آئس لینڈ خوبصورت لیکن مہنگا ہے۔
میں نے دوبارہ 2018 میں بٹ کوائن خریدے جب اس کی قدر کم تھی۔ میرے پاس اب بھی بٹ کوائن ہیں لیکن مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں نے انھیں پہلے بیچ دیا تھا۔
’بٹ کوائن میرے پنشن پلان کا حصہ ہے‘
ہیدر ڈیلینی، گیلیئم وینچرز کی بانی
میں خاموشی سے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتی ہوں۔ میں نے شروع میں پانچ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی تھی اور آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ کیا۔ میری حکمت عملی طویل مدتی ہے۔ اس لیے میں اچانک اتار چڑھاؤ سے پریشان نہیں ہوتی۔
جب میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں گی تب ہم دیکھیں گے کہ میں ان بٹ کوائنز کا کیا کرنے والی ہوں۔
میں نے کبھی بٹ کوائن بیچ کر پیسے نہیں بنائے۔ تاہم جب مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ آیا تھا تب میں نے کچھ بٹ کوائن بیچے تھے۔
میں ایسے کئی لوگوں کو جانتی ہوں جنھوں نے اپنی سرمایہ کاری سے دلچسپ چیزیں خریدی ہیں لیکن میرے لیے یہ ایک پنشن پلان ہے۔ میں عام لوگوں کی طرح اس کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری نہیں کرتی۔
’مجھے اپنی سرمایہ کاری کا ایک پیسہ بھی واپس نہیں ملا‘
ڈیوڈ سٹبلی، سائبر سکیورٹی کمپنی سیون ایلیمنٹس کے بانی
ہمیں ایک کلائنٹ نے بتایا کہ ان کے تمام بٹ کوائن جعلسازی کے ذریعے چُرا لیے گئے۔ انھوں نے اس رقم سے ایک گھر خریدنا تھا۔
وہ بٹ کوائن میں اتار چڑھاؤ سے پریشان ہوئے اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔
لیکن انھوں نے اپنے بٹ کوائٹ والٹ تک رسائی کے لیے ایک جعلی لنک استعمال کیا جس سے ہیکرز نے ان کے اصل بٹ کوائن چرا لیے۔
ان کے پاس 84 بٹ کوائن تھے اور جلعسازوں نے ان میں سے 83 حاصل کر لیے۔ سنہ 2017 میں اس وقت ان کی قیمت 4 لاکھ 75 ہزار ڈالر تھی۔
ہم نے بلاک چین ٹیکنالوجی پر اس ڈیجیٹل ادائیگی کو ٹریس کر لیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ یہ مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔ آخر میں ہم نے دیکھا کہ یہ رقم ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر والے اکاؤنٹ میں چلی جاتی ہے۔
اس جعلساز کی شناخت کا پتا نہ چل سکا لیکن ہم نے ان اکاؤنٹس کو منجمد کردیا ہے تاکہ چرائی گئی رقم تک رسائی حاصل نہ کی جاسکے۔
ہمارا کلائنٹ کافی غصہ ہوا لیکن اس نے فلسفانہ انداز میں اس کا ردعمل دیا۔ ’ایک بار پیسے گئے، تو واقعی گئے۔‘
آج ان چرائے گئے بٹ کوائنز کی کل قیمت 28 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔
’میں نے بینٹلے کار خریدی‘
جواد خان، آزاد صارف
بٹ کوائن میں میرا سفر کسی سرمایہ کاری سے شروع نہیں ہوا۔ یہ رقم کی منتقلی کی ایک شکل تھی۔ مجھے اس کے لیے بینک سے تصدیق کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لیے یہ ایک اچھی سہولت تھی۔
سنہ 2018 میں، میں نے ایک رقم کی منتقلی کی اور اپنے اکاؤنٹ میں کچھ بٹ کوائن رہنے دیے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور یہ میرا منافع ہے۔ میں حیران رہ گیا۔
میں اپنے دوستوں کو بتاتا تھا کہ میں اسے پیسے منتقل کرنے کی ایک سہولت کے طور پر استعمال کر رہا ہوں لیکن میں نے اس میں کبھی سرمایہ کاری کا نہیں سوچا تھا۔
میں نے جنوری 2020 میں یہ بٹ کوائن بیچے اور دبئی میں بینٹلے کار خرید لی۔ اب میں یہیں رہتا ہوں۔ میں نے شو روم سے ایک ویڈیو اپنی والدہ کو بھیجی اور وہ یہ دیکھ کر رونے لگیں۔ انھیں مجھ پر بہت فخر ہوا۔
میں صرف اتنے پیسوں کے بٹ کوائن خریدتا تھا جن سے مجھے کوئی نقصان نہ ہو۔ میں نے زیادہ پیسے رقم کی منتقلی کی فیس میں ادا کیے ہیں۔ جب رقم گِرتی ہے تو میں مایوس نہیں ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ جب کوئی بٹ کوائن کے بارے میں بات نہ کر رہا ہو یہیں انھیں خریدنے کا بہترین وقت ہے۔ آپ انتظار کریں کہ کب اس پر بحث ختم ہوتی ہے۔
’بٹ کوائن کی مائننگ سے میرا بجلی کا بل بہت زیادہ آیا‘
روحن مسقط، الیکٹریکل انجینیئر اور پروجیکٹ مینیجر
سنہ 2010 میں مجھے بٹ کوائن کا پتا چلا۔ میں شروع سے کمپیوٹر استعمال کرنے کا شوقین ہوں۔ میں انھیں مائن (تلاش) کرنا چاہتا تھا۔ میں نے 2016 میں گرافک کارڈز خریدے اور شروع میں مائننگ بہت اچھی رہی۔
ایک سٹارٹ اپ نے مجھے پیسوں کی جگہ ایک اور کرپٹو کرنسی دی اور جنوری 2017 میں میرے پاس 40 ہزار آسٹریلوی ڈالر مالیت کے بٹ کوائن تھے۔
میں نے ان کی تجارت کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر ان کی مائننگ شروع کر دی۔
شروع میں ان سے فائدہ ہوا لیکن بعد میں اخراجات اور منافع ایک جتنے ہوگئے۔ میرا بجلی کا بل ماہانہ 500 سے 600 آسٹریلوی ڈالر آ رہا تھا۔ مائننگ میں بہت بجلی درکار ہوتی ہے۔
میں نے پھر مائننگ کی چیزیں بیچ دیں اور ابھی میرے پاس صرف دو ہزار آسٹریلوی ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی ہے۔
اگر سرمایہ کاری کرتا رہتا تو میں زیادہ پیسے کما سکتا تھا لیکن اس سے جڑے جذبات اور خطرات نے مجھے روک دیا اور میں نے پھر یہ خطرہ مول نہیں لیا۔
’میں نے بٹ کوائنز کی مدد سے گھر خریدا‘
ڈینیئل کروکر، اپنے کاروبار کے مالک
میں سنہ 2012 میں ایک آئی ٹی کمپنی کے لیے کام کر رہا تھا۔ کھانے کے وقفے کے دوران ہر طرف پیسوں کی باتیں ہوتی تھیں۔ کسی کو بٹ کوائن کا علم نہیں تھا۔ ہم نے اس پر وقت لگانے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہفتے لگائے۔
یہ دلچسپی زیادہ دیر نہ رہی لیکن میں نے اپنے بٹ کوائن اپنے ساتھ رکھے۔
میں نے گذشتہ موسم گرما کے دوران انھیں بیچ دیا اور گھر خریدنے کے لیے آدھے پیسے جمع کرا دیے۔
میرے پاس اب بھی کچھ بٹ کوائنز ہیں لیکن میں ابھی انھیں بچا کر رکھ رہا ہوں۔ میں اپنا مستقبل اس پر مرکوز نہیں کروں گا۔
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو بہت زیادہ سرمایہ کاری بٹ کوائن میں کر چکے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں ابھی سے کافی خوش قسمت رہا ہوں۔