وہ تحریک پاکستان کے سپاہی تھے، قائد اعظم سے ملاقات اور خط و کتابت کا شرف بھی حاصل تھا، چالیس سال پاک فضائیہ میں خدمات انجام دیں، حکومت پاکستان نے انہیں گولڈ میڈل اور اعزازی سند سے بھی نوازا مگر گراں قدر خدمات کے باوجود سی ڈی اے اسلام آباد میں ان کے دو پلاٹ کھا گئی۔
بات ہے سابق اسکواڈرن لیڈر عبدالرزاق کی جو ریٹائرمنٹ کے بعد سی ڈی اے کا طواف کرتے کرتے مر گئے مگر رشوت کو گناہ سمجھتے تھے اس لیے حق نہیں ملا۔
منہ مانگی رشوت کے بغیر جائز کام بھی نہ ہوں تو پھر مدینے کی ریاست قائم کرنے کا ہر دعویٰ ایسا مذاق لگتا ہے جس پر ہنسی کے بجائے رونا آتا ہے۔
یہ ماجرا ہے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن عبدالرزاق کا جنہیں قائد اعظم سے ملاقات اور خط و کتابت کا شرف بھی حاصل ہے۔ یہی نہیں انہوں نے پاک فضائیہ میں 40 سال خدمات بھی انجام دیں اور اسکواڈرن لیڈر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔
تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینے پر حکومت پاکستان نے انہیں گولڈ میڈل اور سند سے بھی نوازا لیکن اس کے باوجود سی ڈی اے نے عبدالرزاق جیسے بے مثال سپوت کی ایسی ناقدری کی کہ وہ سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے خالق حقیقی سے جاملے۔
یہ 1963 تھا جب فلائٹ لیفٹیننٹ عبدالرزاق نے اپنے اور اپنی اہلیہ شاہدہ کوثر کے نام مل پور اسلام میں ساڑھے 9 کینال کے دو پلاٹ خریدے، مل پور بنی گالہ کے مقابل واقع ہے جسے بعد میں سی ڈی اے نے ماڈل ویلیج پروجیکٹ کے لیے ایکوائر کر لیا۔
عبدالرزاق کو یقین دہانی کروائی گئی کہ سی ڈی اے بدلے میں انہیں رہائشی پلاٹ یا زرعی زمین دے گی لیکن پہلے عبدالرزاق سی ڈی اے کے چکر لگاتے لگاتے انتقال کرگئے اور اب چکرا دینے والے یہی چکر اُن کی بیوہ کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔
ائیر چیف مارشل، آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیراعظم سمیت سب کو درخواستیں دی جا چکیں، درخواست وصولی کی رسید تو ملی لیکن حق نہیں ملا۔
عبدالرزاق کی بیٹی کہتی ہیں کہ سی ڈی اے افسران چائے پانی کا مطالبہ کرتے تھے لیکن والد کسی صورت رشوت دینے پر تیار نہ تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کی بیوہ اور اولادیں آج بھی کراچی میں کرائے کے گھر میں مقیم ہیں۔
اسکواڈرن لیڈر عبدالرزاق کی 82 سالہ بیوہ اپنے حق کے لیے جدوجہد کرتے کرتے بستر سے جالگی ہیں، اُن کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت اُن کے بچوں کو بے گھری کے عذاب سے نجات دلائے۔