انووک / ثناء آغا خان
یہ گل رباب آخر کون ہیں؟فاطمہ کی گفتگو میں ان کے بار بار ذکر نے مجھے بہت تجسس میں ڈال دیا تھا۔ لاہور سے مالم جبہ تک پورے راستے ، میں یہی سنتی اور من ہی من سوچتی رہی کہ میری سہیلی نے ہم سب کو بہت خلوص کے ساتھ مدعو کیا ہے ، وہ صبح ناشتے پر ہمارا انتظار کرے گی اور جب ہمیں راستے میں دیر ہوگئی تو فاطمہ نے ان سے فون پر بات کی اور بتایا کہ شاید ہمیں پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی اس پر پھر دوسری طرف سے اصرار سے بھرپور پیغام آ گیا کہ میں رات کے کھانے پر آپ سب کا انتظار کروں گی ، نہ جانے یہ گل رباب ہیں کون؟ میرے دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا تھا ، دوران سفر اس تجسس اور اشتیاق نے مجھے جکڑے رکھا اور میں اپنے تخیل کی تتلیوں سے گل رباب کے چہرے بناتی رہی ، اوپر سے فاطمہ کا بار بار ان کا ذکر اور ان کی والہانہ انداز سے تحسین کرنا ، ان کے ذکر سے مجھے تھوڑی جلن محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ویسے تو فاطمہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اجلے اور سلجھے ہوئے انسانوں کے ساتھ رہے ہیں پھر بھی نہ جانے کیوں اس بار مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا کہ کوئی کیسے کسی کو ملے بغیر اتنا جان سکتا ہے ۔خیر ہم رات بہت دیر سے پہنچے اور ابھی پہنچے ہی تھے تو ساتھ ہی گل رباب کی کال آگئی کہ آپ لوگ اس وقت کہاں ہیں ہم بہت تھکے ہوئے تھے اسی لئے چاہتے تھے کہ بس آرام کیا جائے مگر فاطمہ جھٹ پٹ تیار ہو گئی اور ہم سب کو کہنے لگی آپ سب بھی جلدی سے تیار ہو جائیں میں نے ہرصورت اپنی دوست سے ملنے جانا ہے۔ ایک بار پھر جلن محسوس ہوئی ، خیر ہم سب لوگ تیار ہوگئے ویسے تو گل رباب کے گھر جانے کا راستہ بہت سیدھا اور آسان تھا مگر چونکہ ہم اس سیاحتی مقام پر نووارد تھے ، اس لیے ہم نے ایک کنسٹیبل سے پولیس ٹریننگ سینٹر کاراسۃ پوچھا جس نے ہمیں گھر تک پہنچا دیا کہ آپ ارباب شفیع اللّٰہ صاحب کے مہمان ہیں ۔جب ہم وہاں پہنچے تو نہایت ہی شفیق اور پرنور چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجائے اور اپنائیت سے بھرپور انداز کے ساتھ ہماری مہربان میزبان نے ایسے اپنے سحر میں لپیٹ لیا کہ ہم میلوں کی مسافت ایک پل میں بھول گئے اور دشوارگزار سفر کی تھکان اطمینان میں بدل گئی۔اب سمجھ آیا کہ فاطمہ سراپا گل یعنی گل رباب کی اس قدر تعریف و توصیف کیوں کر رہی تھی ۔نہایت خوبصورت اور اونچی لمبی پریوں سے مشابہت رکھنے والی گل رباب کو اپنے روبرو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ فاطمہ ان کے بارے میں جو کچھ کہتی تھی وہ حقیقت میں اس سے کہیں بڑھ کر تھیں۔گل رباب کے خوبصورت چہرے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستانہ اداؤں اور آبرومندانہ وفاؤں نے ماحول اور محفل کو چار چاند لگا دیے تھے ۔ ہمارے وہاں پہنچتے ساتھ ہی انہوں نے گرما گرم کھانا لگوا دیا ۔نہایت پر تکلف کھانا اور اوپر سے ہم بھوک سے نڈھال بھی تھے۔ ہم نے بہت سیر ہو کر کھانا تناول کیا۔ کھانے پر ان کے شوہر ارباب شفیع اللّٰہ سے بھی ملاقات ہوئی وہ بھی نہایت مہمان نواز انسان ہیں۔اس کے بعد پھر ہم گل رباب کے باغ میں تازہ کنو دیکھ کر رات کے پہر توڑنے کے لئے پہنچ گئے یہ نہایت ہی خوبصورت منظر تھا ۔سرد ٹھٹھرتی رات اور کینو کے سرسبزوشاداب شجر دیکھ کر روح سرشار ہوگئی ، باغ میں کچھ شاعرات اکٹھی ہو جائیں تو بات کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے ۔پھر شاعری کی محفل جم گئی اور اس سرشاری کی کیفیت میں ہم بھول گئے کہ ہمارے ساتھ مرد حضرات بھی تھے جو کہ مردان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔خوب محفل جمی ، گل رباب کی خوبصورت شاعری نے ہماری سماعتوں میں رس گھولے اور پھر بعد میں سب نے اپنا اپنا کلام سنایا ۔اسی لمحے مردان خانے سے ایک پیغام موصول ہوا کہ کافی دیر ہو گئی ہے ہم نے آرام بھی کرنا ہے ہم سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ لوگ چلے جائیں ہم خود آجائیں گے ۔یہ وہ لمحہ تھا کہ ہم نے ایک پل کیلئے بھی کچھ نہیں سوچا ، بس یہی چاہتے تھے کہ ہم زیادہ دیر اکٹھے بیٹھیں اور یہ محفل اسی طرح سجی اور جمی رہے ۔اس فیصلے کے بعد ہمیں اپنے بھائی سے بہت ڈانٹ بھی پڑی یہ بھی ایک طویل کہانی ہے پھر کبھی سناؤں گی ، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ ہم نے وہاں جتنا بھی وقت گزارا نہایت شاندار اور یادگار رہا۔ گل رباب نے باہر باغ میں آتش دان کا انتظام کروالیا جس کی حدت میں شدید دھند کے باوجود ہم دیر تک بیٹھے شاعری سنتے سناتے رہے اس دوران ہم نے دو بار چائے نوش کی اور وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا ۔مالم جبہ میں یہ ہمارے سب سے حسین لمحات تھے میں نے کئی بار سوچا کہ اب لکھتی ہوں لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے لکھ نہیں پائی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں گل رباب کا حق نہیں ادا کر پائی ۔یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ ایسے کمیاب لوگ اچانک ہماری زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں ، میں فاطمہ کی بیحد شکر گزار ہوں کہ فاطمہ نے ہمیں گل رباب جیسی باوقار ، باذوق اور خوب صورت شخصیت سے ملوایا ۔وہیں بیٹھ کر پروگرام بن گیا کہ گل رباب صبح ہمارے ساتھ مالم جبہ پہنچ رہی ہیں، وہ صبح مالم جبہ پہنچیں سچ میں گلے رباب پہاڑوں کی شہزادی ہیں ۔وہ سفر اس میزبان کی وجہ سے مزید پرلطف ، پرکیف اور یادگار بن گیا ، آج بھی ہمارے قلوب گل رباب کے ساتھ دھڑکتے اور پھر مالم جبہ جانے کیلئے مچلتے ہیں۔