حیا کا لفظ بہت وسیع ہے، جس کے مطالب میں عاجزی، خودداری اور عزت کو لیا جاسکتا ہے۔ مومن کی زندگی میں حیا ایک لازمی جزو ہے۔ حیا، ایمان کا حصہ ہے جس کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اگر حیا انسان کے اندر سے رخصت ہوگئی تو ایمان بھی جاتا رہے گا، کیوں کہ سارے نیک اعمال کی بنیاد حیا ہے۔
حیا ﷲ تعالی کی جانب سے ایک نور ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے، یہ نور انسان کو اس بات کا تصور دیتا ہے کہ وہ ﷲ تعالی کے سامنے کھڑا ہے اسی بنا پر انسان خلوت اور جلوت ہر حالت میں ﷲ تعالیٰ سے حیا کرتا ہے۔
انسان کے دل میں ﷲ تعالی سے حیا اس وقت پختہ ہوتی ہے جب انسان ﷲ تعالی کی نعمتوں اور احسانات پر نظر دوڑائے اور ان کے مقابلے میں اپنے کمی کوتاہی کو سامنے رکھے نیز یہ بھی تصور اجاگر کرے کہ ﷲ تعالی ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے واقف ہے؛ چنانچہ جس وقت انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ ﷲ تعالی اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر چیز ﷲ تعالی کی نظروں اور سماعت کے زیر اثر ہے تو انسان ﷲ تعالی سے بہت زیادہ حیا کرے گا اور ﷲ تعالی کی ناراضی کا باعث بننے والے امور سے دور رہے گا۔
حیا وہ خوبی ہے جو انسان کو گناہ کے راستے پر جانے سے بچاتی ہے۔ یہ انسان کی زبان، اس کی نگاہوں، سماعت اور قدموں کو غلط کاموں سے روکے رکھتی ہے۔ جب انسان میں حیا نہ رہے تو وہ بے حس ہوجاتا ہے، اسے نہ تو گناہ کا احساس ہو پاتا ہے نہ ﷲ کی ناراضی کا ڈر۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔ حیا نہ صرف انسان میں ﷲ کا ڈر پیدا کرتی ہے بل کہ جس میں حیا ہوتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی لحاظ و مروت سے کام لیتا ہے۔ حیا انسان کو بداخلاقی و بدتہذیبی سے بچاتی ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں حیا رکھی ہے۔ انسان میں حیا کا ہونا مرد و زن دونوں کے لیے یک ساں ضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حیا کا لفظ ادا کیا جائے تو اس کو محض عورت سے منسوب کردیا جاتا ہے، جب کہ قرآن میں سورۃ نور میں عورتوں سے پہلے مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی پردے اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ نگاہ کی حفاظت انسان کو باحیا بناتی ہے۔ کیوں کہ اگر نظر میلی ہوگئی تو دل بھی میلا ہوگا۔ نظر کا جھکانا دل کو روشن کرتا ہے۔ آنکھ میں حیا ہوگی تو دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ حیسا کہ حیا کا لفظ حیات سے نکلا ہے تو یہ حیات القلب یعنی دل کی زندگی کا نام ہے۔
لوگوں سے حیا اور شرم انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے، اگر کسی انسان کو اپنے مسلمان بھائی سے صرف اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے شرماتے ہوئے گناہ نہیں کرتا تو یہی اس کیلیے کافی ہے، لوگوں سے حیا ﷲ تعالی سے حیا کا ذریعہ ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص لوگوں سے حیا نہیں کرتا تو وہ ﷲ تعالی سے بھی حیا نہیں کرتا، نیز اگر کوئی شخص باحیا لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے تو اس کی حیا تروتازہ ہو جاتی ہے۔
سب سے اعلی بات تو یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے حیا کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص تنہائی میں ایسا کام کرتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کرتا تو در حقیقت وہ شخص خود اپنا احترام نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے تو شرماتا ہے لیکن خود اپنے آپ سے نہیں شرماتا تو اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے بھی حقیر اور ذلیل بنایا ہوا ہے، لیکن اگر اپنے آپ اور لوگوں سے شرماتا ہے لیکن ﷲ تعالی سے حیا نہیں کرتا تو وہ معرفت الہی سے نابلد ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی دل کو سب سے سنگین سزا یہ ہے کہ اس میں سے حیا چھین لے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "حیا اور ایمان دونوں کا آپس میں مضبوط رشتہ ہے، لہذا اگر ان میں سے ایک چیز بھی اٹھ گئی تو دوسری بھی اٹھ جائے گی”
حیا انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے اور حیا دار انسان کو تقوی کی جانب لے جاتی ہے، لیکن اگر کسی میں حیا باقی نہ رہے تو وہ پھر مخالف سمت میں چل پڑتا ہے۔
انسان اور گناہوں کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ یہی حیا بنتی ہے، چنانچہ باحیا شخص اسی طرح گناہوں سے دور رہتا ہے جس طرح ایمان کی بنا پر گناہوں سے دور رہتا ہے۔
حیا انسان کو عزتِ نفس کے تحفظ کی ترغیب دیتی ہے، اس لیے انسان ضرورت کے باوجود کسی سے کچھ نہیں مانگتا،
اگر کسی شخص کی پردہ پوشی حیا کے ذمے ہو تو لوگ اس کے عیب نہیں دیکھ پاتے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’ﷲ سے حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔ لوگوں نے کہا وہ تو ہم کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ حیا نہیں۔ ﷲ سے حیا یہ ہے کہ انسان اپنے سر اور جو کچھ اس کے اندر ہے، پیٹ اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اس کی حفاظت کرے۔ اور موت اور اس سے جڑے فتنوں کو یاد رکھو، اور جو آخرت کی تمنا کرتا ہے وہ اس دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص یہ سب کرتا ہے وہ واقعی ﷲ سے حیا کرتا ہے جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ (ترمذی)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ باحیا ہونے کا مطلب محض شرمیلا ہونا نہیں بل کہ ہر چیز کے بارے میں محتاط ہونا ہے۔ ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ملائکہ اور لوگوں سے بھی حیا کرنا۔ لوگوں سے حیا صرف یہ نہیں کہ انسان لوگوں کے ڈر سے غلط کام نہ کرے بل کہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی ان سے حیا کرنا ہے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے بھی انسان حیا کرے اور کوشش کرتا رہے کہ بری باتیں ذہن و دل میں جگہ نہ بنائیں۔ ایمان کی حفاظت کے لیے حیا کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اس لیے اپنے اندر اس کیفیت کو لانے کے لیے ﷲ سے دعا اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔