کالم

مریم اورنگزیب کو شکریہ کے ساتھ چند تجاویز اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ کا بحران۔۔۔حل کیاہے ؟ممتاز صحافی عقیل احمد ترین کے قلم سے

مشکل ترین حالات میں متوازن اور غریب پروربجٹ

مریم اورنگزیب ،سہیل علی خان کا صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کیلئے1ارب رکھنا قابل تحسین

مریم اورنگزیب صاحبہ اور سہیل علی خان صاحب ! اخبارات کے نرخوں والی فائل پر بھی ایکشن کرائیں

پرنٹ میڈیا کیساتھ کم وبیش 40ہزار اخبار فروش و دیگر الائیڈاداروں کے خاندانوں کا رزق وابستہ

مریم اورنگزیب صاحبہ! فواد چوہدری نے پرنٹ میڈیا کو بہت نقصان پہنچایا، آپ مسیحا بن کر سامنے آئیں

کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا بجٹ ڈیجیٹل میڈیا کیلئے استعمال کرنا ٹھیک؟
کیا اے پی این ایس اورCPNEکواخبارات کے بجٹ کو ڈیجیٹل کیلئے استعمال ہونے سے روکناچاہیئے؟

کیا ڈیجیٹل میڈیا کے 9مئی میں کردار کے بعد بھی اس کو امپاور کرنا ریاست کیلئے درست؟

بہت ضروری ہے تووزارت اطلاعات اخبارات و چینلز کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مضبوط کرنے پہ کام کرے

اخبارات ،چینلز کے یوٹیوب ،فیس بک،ٹوئٹر پلیٹ فارمز پروفیشنل کنٹرول میں تو ہوتےوہ ریڈ لائن کراس نہیں کرتے

مریم اورنگزیب صاحبہ! ڈیجیٹل میڈیا پر زیادہ فوکس کی بجائے پرنٹ ،الیکٹرانک میڈیا کو امپاور کیاجائے تو انتشار و فساد کے ٹولز دشمن قوتوں کو میسر نہیں ہونگے

اگر کہیں پرنٹ میڈیا بجٹ کے حجم پرکٹ لگاکراسے ڈیجیٹل میڈیا کو دینے پر کام ہورہا تو اس پر نظر ثانی کی جائے

خیبر پختونخوا کے محکمہ اطلاعات میں انفارمیشن کے آفیسر کے ڈی جی بننے پر تنازعہ طول پکڑ گیا

ہم نے وفاق میں سیکرٹری اطلاعات انفارمیشن گروپ کا لگانے کیلئے لمبی جنگ لڑی

نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال آگے بڑھیں اور عمران احمد کے ڈی جی کے آرڈر کرکے بڑا ہونے کا ثبوت دیں

کیا خیبر پختونخوا انفارمیشن میں واقعتا ایک ارب 30کروڑ کا غبن ہوا؟

اگر سوا ارب کا غبن ہو اتو کیا اس کی محکمانہ انکوائری ہوئی؟ کیا اس کے پختہ دستاویزی ثبوت ہیں؟

ایف آئی اے ابھی تک کیوں تفتیش مکمل کرسکی نہ بینک مینجر اور ملوث آفیسرز پکڑے گئے؟
اس پہ اخبارات کی تنظیمیں کیوں خاموش؟ سکینڈل کو کس نے FIAمیں دینے کی جلدی کی ؟ اس کا نقصان کیا ہوا؟

معاملہ نگران صوبائی وزیر اطلاعات خود حل کریں تو بہتر ورنہ اس پہ پنڈی یا وفاق سے ردعمل آسکتا

عقیل احمد ترین

بجٹ آگیا ، سرکاری ملازمین اور پنشنرز ابھی تک حیران ہیں کہ اتنے مشکل حالات میں جناب اسحاق ڈار صاحب جب غریب امیر کا یکساں جوس نکالنے کا ارادہ کر بیٹھے تھے تو پھر ان کی تنخواہیں 30اور 35فیصد بڑھ کیسے گئیں؟ پیشنرز بھی خوشگوار حیرت کا شکار ہیں ۔
بجٹ کیا ہے ؟ اس کا پتہ تو آنے والے دنوں میں چلے گا۔ البتہ اس میں بعض نکات اس لحاظ سے قابل اعتراض ہیں کہ حکومت اور ایف بھی آر ابھی بھی پرانے ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر تلی ہے ،بجائے اس کے ان کو سہولیات دی جائیں اور نئے ٹیکس دینے والے ڈھونڈے جائیں ،الٹا وہ تاخیر سے فائلنگ کرنے والوں کو سزا دینے چلی ۔ یہ کم از کم اسحاق ڈار کا فارمولہ نہیں ہوسکتا ، اس سے نئے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی جس سے ٹیکس ہدف پورا نہیں ہوسکے گا !
پیارے پڑھنے والو!
موجودہ بجٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی سربراہی اور ذاتی کاوشوں جبکہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات سہیل علی خان کی محنت سے میڈیا کیلئے بہت کچھ رکھا گیا ، صرف ورکنگ جرنلٹس اور میڈیا ورکرز کی ہیلتھ انشورنس کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں جس کا کریڈٹ بہر حال مریم اورنگزیب کو جاتا ہے۔
یہاں لکھتا چلوں کہ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے ان کی تنخواہیں 35فیصد بڑھادیں وجہ یہ تھی کہ بیوروکریسی کو خوش کرنا ضروری تھا، تو جیسے سرکاری ملازمین کے حالات برے ہیں اس سے بھی برے اوربدتر حالات پرنٹ میڈیا انڈسٹری کے ہیں ،جس کے ساتھ کم و بیش 40ہزار اخبار فروش خاندانوں کا رزق جڑا ہوا ہے ۔ یہ صرف اخبار فروخت کرنے والوں کا میں نے بتایا، اس صنعت سے کم و بیش ایک لاکھ خاندانوں کا براہ راست رزق لگا ہے
جسمیں اس سے الائیڈ شعبے ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں ، پرنٹنگ مشینیں، پرنٹ میٹریل شامل نہیں ، اتنی بڑی انڈسٹری کے ساتھ فواد چوہدری نے اپنے دور حکومت میں ظلم عظیم کیا۔ پرنٹ انڈسٹری کو اگر کسی نے ریلیف دیا تھاتو وہ پیپلز پارٹی کی 2007سے2013تک والی حکومت تھی اس کے بعد اس کے اشتہارات کے نرخ بڑھائے گئے اور نہ کاغذ و میٹریل کو سبسڈائز کیا گیا اور نہ ہی اس کیلئی قابل ذکر ریلیف سکیم دی گئی۔
موجودہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات سہیل علی خان اور ان کے ٹیم کے پرنسپل انفارمیشن آفیسربرادر مبشرحسن کوشش کررہے کہ پرنٹ کے اشتہارات کے نرخ اور اسکے حجم میں اضافہ کیا جائے ،لیکن بدقسمتی سے وزارت اطلاعات و نشریات کے بعض سیانے اس بجٹ کو بھی سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر خرچ کرنے کا سوچ رہے ۔ اس پر میرا سوال ہے کہ ایسا کیوں؟ کیا ہم نے 2017سے 2023میں ڈیجیٹل میڈیا (یوٹیوب، ٹک ٹاک، فیس بک ، ٹویٹر) پر لاکھوں ڈالر خرچ کرکے اپنے ملک میں 9مئی کی شکل میں تباہی نہیں کی؟ کیا وزارت اطلاعات و نشریات کو اس بجٹ کو اخبارات اور ٹی وی چینلز کے فیس بک ، ٹویٹر ، یوٹیوب پلیٹ فارمز پر خرچ نہیں کرنا چاہیئے، جہاں پر کام کرنے والا ہر شخص پروفیشنل ہے اور کل وقتی صحافی ہے! میری یہ تجویز ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات جو ڈیجیٹل بجٹ کے حجم کو بڑھانے اور پرنٹ میڈیا کے حجم کوکٹ کرنے کا سوچ رہی اس کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، میرا خیال ہے کہ یہ وہ وقت نہیں جب آپ یوٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز اور ڈیجیٹل میڈیا والوں کو امپاور کریں کیونکہ ہم اس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں،اس پہ تو اے پی این ایس اور CPNEکو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تاکہ پرنٹ کا بجٹ کسی اور مد میں خرچ نہ ہو،اس کیلئے اخبارات کو جنگ لڑنا ہوگی۔ اس طرح میری وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب صاحبہ اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سہیل علی خان سے گزارش ہے کہ وہ کم از کم اس فائل کا ہی پتہ چلالیں کہ وہ کہا ں ہے ؟ جس میں اخبارات کے نرخ بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی، اس طرح میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ ٹینڈر نوٹس جاری کرنے کا فارمولہ بھی بدلنا چاہیے کیونکہ یہ 1963-64 نہیں بلکہ 2023ہے جہاں پر آبادی 8کروڑ سے بڑھ کر 25کروڑ ہوچکی ہے جہاں پر اخبارات کی تعداد بڑھی ہے تو اب ٹینڈر نوٹس کی ریلیز بھی بڑھنی چاہیے
پیارے پڑھنے والو!
خیبر پختونخوا میں اس وقت اطلاعات و تعلقات عامہ میں تناؤ کی کیفیت ہے، نگران حکومت کے وزیر اطلاعات اور محکمہ اطلاعات کی آفیسرز ایسوسی ایشن کے درمیان پھڈا عروج پہ ہے۔ دوسری طرف اس خط پر بھی پھڈا ہے جو انفارمیشن پختونخوا کی طرف سے ایف آئی اے کو لکھویاگیا جس میں محکمہ اطلاعات کے فنڈز میں ایک ارب 30کروڑ روپے کے غبن کی تحقیقات کی درخواست کی گئی ، اس میں بتایا گیا کہ محکمہ اطلاعات کے بعض آفیسرز کی ملی بھگت سے "ڈائریکٹر انفارمیشن "کے نام سے بینک اسلامی کی پشاور برانچ میں جعلی اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں مختلف اخبارات ، ٹی وی چینلز میں دیئے گئے اشتہارات کی سوا ارب کی رقم منتقل کرکے نکال لی گئی ، اس الزام کی بنیاد یہ بتائی گئی کہ مختلف میڈیا ہاؤسز کے ایک ارب 60کروڑ روپے کی رقم محکمہ اطلاعات کے ذمے ہے جبکہ اس وقت محکمہ اطلاعات کے اکاؤنٹ میں 9کروڑ اور سپانسرڈ محکموں کے پاس 20کروڑ کے بقایا جات ہیں ، اس لئے یہ شک ہے کہ باقی کی ایک ارب 30کروڑ کی رقم اس اکاؤنٹ یا دوسرے نامعلوم اکاؤنٹس میں خوردبرد کرلی گئی ہوگی ،جبکہ محکمہ اطلاعات میں موجود اس رجسٹر کو بھی غائب کردیا گیا جس میں جمع کرائے گئے چیکوں کی تفصیلات درج ہوتی تھی۔ بینک میں جعلی اکاؤنٹ حیدر علی اور شایان شاہ کنسٹرکشن کے نام سے کھولا گیا ،درخواست میں کہا گیا ہے کہ ”اس معاملے میں محکمہ اطلاعات کے کچھ لوگ بھی ملوث ہیں۔
پیارے پڑھنے والو!
یہ درخواست کافی دنوں سے میرے پاس موجود تھی اس پر ایف آئی اے نے شاید کچھ ریکارڈ بھی محکمہ اطلاعات سے لیا ہے ، سوال یہ ہے کہ درخواست 3مئی کو دائر کی گئی،اس پر ابھی تک ایکشن کیا ہوا؟ کتنی گرفتاریاں ہوئیں؟ اور کون کون سے جعلی بینک اکاؤنٹس پکڑے گئے جنمیں 1ارب رقم گئئ ؟ اگر تو اس پر اکاؤنٹ کھولنے والا بینک منیجر آزاد ہے؟کنسٹرکشن کمپنی والا آزاد ہے؟ محکمہ اطلاعات کے اس وقت کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر ایڈورٹائزمنٹ کیخلاف کچھ نہیں نکلا تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ یہ درخواست محکمانہ انکوائری سے قبل کس نے اور کیوں ایف آئی اے کو دی؟ کیا درخواست دینے والے کے پاس دستاویزی ثبوت پورے تھے؟ اگر نہیں تھے تو پھر اس پر اتنی جلد کیوں کی گئی؟اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھتا چلوں کہ خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کو ایک قدم آگے بڑھ کر محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا میں انفارمیشن کیڈر کے آفیسر کے ڈی جی کو تعینات کرکے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تاکہ میڈیا اور انفارمیشن آفیسرز کے اندر پھیلی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے ، میرا یہ ماننا ہے کہ وزیر اطلاعات اگر حسب وعدہ سینئر موسٹ انفارمیشن آفیسر محمد عمران کو ڈی جی تعینات کردیتے ہیں تو صحافیوں ،اخبارات اور انفارمیشن سے متعلقہ لوگوں میں ان کی عزت بڑھ جائے گی،اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہ معاملہ وفاق اور پنڈی پہنچے گا تو پھر یہ اصول اور ضوابط کے تحت حل ہوجائیگا لیکن بہت ساروں کی عزت اور پگڑی اچھال کر۔۔۔باقی دوست سمجھدار ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button