کالم

سہیل آفریدی کا وزیراعلی رہنا اب مشکل،گورنرراج یاان ہاوس تبدیلی وقت کی ضرورت

قلم کی جنگ /عقیل احمد ترین

 

عقیل احمد ترین
Aqeel Tareen

سہیل آفریدی کی شر انگیزی ! ریاست سے قبل KPKعوام وزیر اعلیٰ کا محاسبہ کرے

KPK اراکین اسمبلی کومواخذہ کی تحریک کیلئے آگے آنا ہوگا ورنہ گورنر راج
واحد حل

کل ایک آرٹیکل لکھا ! موضوع تھا عمران خان، سہیل آفریدی اور ڈیجیٹل میڈیا کو ادائیگیاں

پھر رات گئے سہیل آفریدی کے شیطانی کلپ کے باعث اس کو ڈراپ کردیا

سہیل آفریدی نے ملکی بنیادیں ہلادیں ! افغان ٹویٹر کاؤنٹس نے اس کو بڑھاوا دیا

میرا خیال تھا کہ عمران خان نے وقت سے سبق سیکھ لیا لیکن لگ رہاوہ مزید زہریلے ہوچکے

سہیل آفریدی کا نام جب سامنے آیا تو اعتراض تھا اس کو صوبہ چلانے کا تجربہ نہیں

جواب اب مل گیا وہ صوبہ چلانے نہیں ریاست کیخلاف جنگ چھیڑنے آیا

سوال یہ ہے کہ سہیل آفریدی شرانگیز گفتگو کھلے عام کرنے پر وزیر اعلیٰ کے منصب کا اہل رہا ؟

سہیل آفریدی کو روکا نہ گیا تو وہ کل کلاں افغانستان کی زبان بھی بولے گا

جس فوج پر سہیل آفریدی نے الزام لگایا اس کو پتہ بھی نہیں کہ سب سے زیادہ دین وہاں ہی پڑھایا جاتا

خیبر یونین آف جرنلسٹ،وکلا وسول سوسائٹی نے سہیل آفریدی کے الزامات مسترد کردیئے ،اب باری ہے عوام کی

خیبر پختونخوا کی عوام کو سازش کو سمجھنا چاہئے اور سہیل آفریدی کیخلاف نکلنا چاہیے

سہیل آفریدی اسلئے قابل معافی نہیں کہ اس نے کوئی سیاسی شعبدہ بازی نہیں کی بلکہ ریاست کیخلاف نفرت و بغاوت کی چنگاری سلگائی

عقیل احمد ترین

کچھ ایکشن اور لکھے گئے الفاظ اگر آپ نظر ثانی کے مراحل سے گزارنے کے ماہر ہیں تو انسان بہت ساری غلطیوں کی تلافی اور ان کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ۔ گزشتہ روز میں نے بانی تحریک انصاف اور ان کے لاڈلے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی بارے خوش گمانی پہ مبنی اصلاح احوال کی نیت سے ایک آرٹیکل لکھا۔ اس آرٹیکل میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے حوالے سے اسکی ڈیجیٹل میڈیا پر نوازشات بارے بھی چند انکشافات تھے لیکن جب یہ کالم کمپوز ہورہاتھا تو اسی وقت ڈیجیٹل میڈیا پر میں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے پاک فوج اور مساجد کی توہین کے حوالے سے زہریلے پن کے کلپ دیکھے جنہوں نے ایکس ، فیس بک اور دوسرے میڈیا پلیٹ فارمزپہ اودھم مچایا ہوا تھا!
سہیل آفریدی کے الفاظ یہاں لکھنے کا میرا حوصلہ ہے نہ میری قلم کی حرمت اس کی اجازت دیتی ہے لیکن آج میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عمران خان اقتدار کی بھوک میں ان بھیڑیوں کو ہر اول دستے کے طور پر سامنے لے آیا ہے جن کو اگر روکا نہ گیا تو انہوں نے پاکستان کی بنیادیں ہلادینی ہیں۔ اب ذرا افغان شہریوں کے نام پر اردو اور انگلش میں چلنے والے ٹویٹر اکاؤنٹس دیکھیں جن کو الگورتھم کے ذریعے انڈیا پاکستان میں وائرس کی طرح پھیلا رہا ہے اور ساتھ آپ سہیل آفریدی کا زہریلا پن دیکھیں تو آپ کو سمجھ آئیگی کہ 2009میں جنرل پاشا پھر جنرل ظہیر السلام نے جو 2014میں 126دن کا دھرنا اور تماش بینی کا اہتمام پرائم ٹائم میں کیا وہ اژدھا بن کر آج پورے خیبر پختونخوا کو نگلنے کو تیار ہے !
پیپلز پارٹی اور خاص کر ن لیگ کو سبق سکھانے کی غرض سے جس قوت کی پی ٹی آئی کی شکل میں آبیار ی کی گئی اس نے عفریت بن کر پہلے اسٹبلشمنٹ کو نگلنا اور بھنبھوڑنا شروع کیا اور اب وہ ریاست کی ایسی دشمن بن گئی ہے انڈین اور دوسرے دشمنوں کو اب پاکستان کے اندر کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
سب سے پہلے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سہیل آفریدی کا چناؤ عمران خان نے کن بنیادوں پر کیا؟آپ کو یاد ہوگا کہ جب سہیل آفریدی کا نام سامنے آیا تو سب سیانوں نے یہ کہہ کر اس کی نامزدگی پر سوالیہ نشان ڈال دیا کہ اس کو تو پارلیمانی سیاست کا تجربہ ہے نہ حکومت چلانے کا !وہ آئے گا تو صوبے کی گورننس اور ترقی کی رفتار پر سوال اٹھیں گے، لیکن اب سمجھ آیا کہ سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کی 4کروڑ کے قریب آبادی کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ ریاست اور خاص کر فوج کیخلاف محاز کھڑا اور فاٹا و قبائل علاقوں میں دم توڑتی خوارجیوں کی طاقت کو نئی آکسیجن دینے آیا ہے !
میرا سوال یہاں یہ ہے کہ کیا اس طرح بغیر ثبوت والزام تراشی کرنے والا یا سوشل میڈیا پر اس طرح کی نفرت انگیز ،شر انگیز گفتگو کرنے والا شخص کس عوامی و حکومتی عہدے پر رہ سکتا ہے ؟ اگر کوئی اسکے حق میں یہ دلیل دے کہ یہ عوامی نمائندہ ہے اور سچ بولنا اس کا حق ہے؟ تو کیا اخلاقیات، ملکی سالمیت ، ریاستی اداروں کیخلاف ایسی گفتگو کھلے عام وہ بھی ایک ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اسکو اسکی اجازت دی جاسکتی ہے ؟ ایسا تو کوئی یونین کونسل کا کونسلر ، تھانے کی مصالحتی کمیٹی کا ممبر نہیں کرسکتا تو پھر وزیر اعلیٰ کے منصب پر بیٹھے اس شخص کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ ریاست کی اساس پر حملہ کرے؟ سہیل آفریدی نے جس ریاستی ادارے کیخلاف یہ الزام تراشی کی اس بارے اسکو شاید یہ پتہ نہیں کہ جتنا اسلام ، قرآن اور حدیث وہاں پر پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے ، جتنا تقدس اور احترام ان کو سکھایا جاتا اتنا شاید مدارس اور مساجد میں مولوی بھی نہیں سکھاتے !
جس طرح کی گفتگو سہیل آفریدی نے کی اس کا واحد مقصد صوبے میں خوارجیوں کیخلاف فوجی کارروائیوں کو روکنا اور عوام کے اندر ریاستی ادارے کیخلاف نفرت پیدا کرنا ہے ، خیبر یونین آف جرنلٹس،وکلا اور سول سوسائٹی نے سہیل آفریدی کیخلاف ایک سٹینڈ لیا ہے اور اس کی الزام تراشیوں کو مسترد کردیا ہے ،اس طرح اگر میں اس سے آگے کی بات لکھوں تو سہیل آفریدی کی شرانگیزی پر ریاست کے ایکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ارکان اسمبلی کو ایکشن لینا چاہیے، سہیل آفریدی میڈیا ٹاک کرنے جائے تو صحافتی برادری کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے کیونکہ ریاست اور پاکستان سے زیادہ کوئی اہم ہے نہ بڑا،عوام کو بھی سڑکوں پر نکل آنا چاہیے ، وزیر اعلیٰ آفریدی کی یہ گفتگو کوئی سیاسی سٹروک یا گولہ باری نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت میں وفاق، فوج کیخلاف کے پی کے میں بغاوت کی چنگاری لگانے کی عملی کوشش ہے اور وہ بھی ایسے میں جب پاک فوج اپنے عوام کو خوارجیوں کے چنگل سے بچانے کیلئے جان کے نذرانے پیش کررہی ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان سے جنگ کیلئے تیار ہیں۔
پیارے پڑھنے والو!
ریاست کو خیبر پختونخوا کی عوامی قوت کو ساتھ رکھ کر سہیل آفریدی کا راستہ روکنا ہوگا۔ چاہے اس کیلئے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے، بصورت دیگر کل کلاں یہ افغانستان کی زبان بھی بول کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا اب صرف گورنر راج اور گورنر راج میں ہی اس کاحل ہے، یا پھر کے پی کے اراکین اسمبلی کو سہیل آفریدی کا مواخذہ کرنے کیلئے تیار کرنے میں ہی آنیوالی سازش کے روکنے کا حل پوشیدہ!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button