
* ۔
ایڈیٹر روزنامہ غزنوی عقیل احمد ترین کے 25 اکتوبر 2025ءکے کالم کا حسب معمول مطالعہ کیا۔میں ان کے تمام کالم بہت غور سے پڑھتا ہوں،ان کالمز میں وہ تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں جو ایک انتہائی شاندار کالم کی جان ہوتے ہیں،تاہم ان کے 25 اکتوبر کے کالم میں، معلومات اور تجسّس کے عناصر غالب تھے۔یہ کالم تیکنیکی اعتبار سے بھی ایک بہترین کالم تھا میں یہ اظہار بر ملا کر سکتا ہوں کہ نئے لکھنے والے ان کے کالم پڑھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں کچھ نکات کی جھلک اس کالم میں نظر آئے گی۔وزرات اطلاعات ونشریات میں سیکرٹری کا عہدہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس عہدے کے لئے زبردست لابنگ کی جاتی ہے۔وزرات اطلاعات و نشریات کی سابق سیکرٹری عنبرین جان چند روز قبل اپنی مدت ملازمت سے سبک دوش ہو چکی ہیں اور بیوروکریسی میں یہ بحث بڑی شد و مد کے ساتھ چل رہی ہے کہ نیا سکریٹری کون ہوگا ،عقیل احمد ترین نے اس موضوع کو اپنے کالم کا حصہ بنایا ہے۔عقیل احمد ترین میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کھوج کے بہت ماہر ہیں خبروں میں سے خبر نکالنا اور پھر اس میں کھوج یعنی تجسس کے عناصر شامل کرنا اور اسی بنیاد پر حقائق سامنے لانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔وزرات اطلاعات کا سیکرٹری کون ہوگا؟اس وقت یہ موضوع صحافتی حلقوں ،بیورو کریسی و وزرات سے ملحقہ اداروں اور افسران و ملازمین کے لئے ہارڈ ٹاپک ہے۔تو انہوں نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ زیر بحث تھا۔اس کالم میں جو معلومات افشاء کی گئیں وہ حقیقت کے بالکل قریب تھیں انہوں نے دو ناموں کی ایک فہرست دی اور یہ بھی بتایا کہ یہ دو نام فیورٹ ہیں کس کے اور کیوں فیورٹ ہیں پس منظر اور کڑی سے کڑی بھی ملائی تاکہ قارئین اور دلچسپی رکھنے والے افراد اندازہ لگا سکیں کہ کون سکریٹری اطلاعات ہوگا۔یہ ان کے قلم سے مزین الفاظ تھے کہ ان الفاظ نے پڑھنے والوں کے اندر بھی تجسس کی گرہیں ڈال دیں۔عقیل احمد ترین کے کالم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کی بنیاد پر حقائق کو پرکھتے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے ایک بیورو کریٹ کے متعلق یہ بتایا کہ ایک دن قبل انہوں نے پی ٹی وی کا وزٹ بھی کیا تو ان کا وزٹ یہ اطلاع دے رہا کہ وہ سیکرٹری اطلاعات بھی بن سکتے ہیں تاہم ان کے ایم ڈی پی ٹی وی کے منصب پر فائز ہونے کے امکانات روشن ہیں۔انہوں نے اپنے کالم میں ہی ایک اور نیوز بھی بریک کردی کہ اس بار سیکرٹری اطلاعات کے پاس ایم ڈی پی ٹی وی کا چارج نہیں بھی ہو سکتا اور ہو بھی سکتا ہے جیسا کہ سابق سیکرٹری اطلاعات کے پاس ایم ڈی پی ٹی وی کا اضافی عہدہ بھی تھا۔عقیل احمد ترین کے کالم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات کے نام کا حتمی علم وزیر اعظم،وزیر اطلاعات و نشریات اور پی آئی او کو ہے۔اس کے علاؤہ کسی بھی ریفرنس یا سورس سے آنے والی نیوز افواہ کے سوا کچھ نہیں،اس کا مطلب ہے یہ کہ اگر عقیل کے پاس نیوز ہے تو ان تین مناصب پر فائز کسی ایک سے ان کا قوی رابطہ ہے اور انہیں پوشیدہ الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ نیا سکریٹری اطلاعات و نشریات کون ہوگا؟صحافت کے شعبہ میں قدم رکھنے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سورس آف نیوز سے مضبوط تعلق اس کادرست اوربا اثر ہونا کتنا ضروری ہے؟عقیل ترین کی سب سے بڑی خوبی اختصار، اور عام فہم الفاظ کا استعمال ہے۔وہ لفاظی کے قائل نہیں،غیر ضروری الفاظ ان کی ڈکشنری کا حصہ نہیں،الفاظ کا استعمال اتنی احتیاط سے کرتے ہیں کہ کسی لفظ کو مرنے نہیں دیتے انکے الفاظ اور جملے بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں۔عقیل احمد ترین کے کالم کی تیکنیکی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کی بہت قدر کرتے ہیں اور انہیں پیارے پڑھنے والو لکھ کر مخاطب کرتے ہیں۔اس طرح کے الفاظ قارئین کو کالم نگار کے مزید قریب کر دیتے ہیں یعنی الفاظ کی طاقت انہیں ایک گہرے اور پیار بھرے رشتے میں پرو دیتی ہے۔ان کے کالم میں ایک تیکنیکی خوبی یہ بھی نوٹ کی کہ کالم کی سرخیاں سب سے دلچسپ موضوع کے متعلق تھیں جب کہ سرخیوں سے متعلقہ سب سے اہم حصہ کالم کے اختتام میں زیر بحث لایا گیا تھا یوں انہوں نے پہلے قاری کو سرخیوں کے ذریعے کالم کی جانب راغب کیا اور سب سے دلچسپ اور اہم موضوع کو اس لئے اختتام کا حصہ بنایا کہ قاری کی دلچسپی کالم کے اختتام تک برقرار رہے،یہ تیکنیک بھی نئے کالم نگاروں کے لئے بہت اہم ہے کہ وہ قارئین کو اپنے کالم کے آخری لفظ تک کیسے جوڑ کر رکھتے ہیں۔عقیل احمد ترین کالم کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کےالفاظ،پیغام اور مقصد قاری کی سوچ کو تبدیل کر سکتا ہے۔اور ن کے کالم کی یہ خصوصیت ایم۔فل ایک ریسرچ تھیوری(cultivation Theory) پر پورا اترتی یے,کہ کیسے الفاظ کے ذریعے اذہان کو بدل دیتی ہے۔میری دعا ہے کہ اللّٰہ کریم عقیل احمد ترین کے قلم میں مزید برکت عطا فرمائے (آمین).


