یورپ اور برطانیہ میں ہر سال اکتوبر کے آخری اتوار کو گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں، اور یہ عمل "ڈی لائٹ سیونگ ٹائم” کے اختتام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ کوئی عام روایت نہیں بلکہ ایک منظم اور سائنسی بنیادوں پر قائم نظام ہے جس کا مقصد گرمیوں میں دن کی زیادہ روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ جب گھڑیاں آگے کی جاتی ہیں تو شام دیر تک روشن رہتی ہے، لوگ زیادہ دیر تک باہر رہ سکتے ہیں، توانائی کی بچت ہوتی ہے، اور روزمرہ کے معمولات میں توازن قائم رہتا ہے۔ پھر جب اکتوبر آتا ہے اور سردی کی لمبی راتیں شروع ہوتی ہیں تو گھڑیاں پیچھے کر دی جاتی ہیں تاکہ صبح کے وقت زیادہ روشنی دستیاب ہو۔ یہ عمل اس بات کی علامت ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے قدرت کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مارچ کے آخر میں جب دن لمبے ہونے لگتے ہیں تو گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں شام کے اوقات میں زیادہ روشنی میسر آتی ہے اور لوگ دیر تک اپنی مصروفیات جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک سوچا سمجھا انتظام ہے جس کے پیچھے مقصد صرف سہولت نہیں بلکہ اجتماعی فائدہ ہے۔ بجلی کے کم استعمال سے نہ صرف توانائی کی بچت ہوتی ہے بلکہ ماحول پر دباؤ بھی کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اکتوبر میں سردی کا آغاز ہوتا ہے اور سورج جلد ڈوبنے لگتا ہے تو گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کی جاتی ہیں تاکہ لوگ صبح کی روشنی میں اپنے دن کا آغاز کر سکیں۔ اس طرح یہ نظام قدرت کے ساتھ انسانی زندگی کو متوازن رکھتا ہے۔
یورپ میں اس نظام کی خاص بات یہ ہے کہ عوام اس تبدیلی کو کسی پیچیدگی کے بغیر قبول کرتے ہیں۔ یہاں یہ معمول کا حصہ ہے کہ سال میں دو بار وقت بدلتا ہے، مگر کسی کو اس پر اعتراض یا الجھن نہیں ہوتی۔ اسکولوں، دفاتر، ٹرینوں، ہوائی اڈوں اور حتیٰ کہ عبادت گاہوں کے اوقات خود بخود نئے وقت کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ یہ نظم و ضبط دراصل ایک اجتماعی شعور کا مظہر ہے جہاں ہر شخص نظام کا حصہ بن کر اسے چلانے میں کردار ادا کرتا ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان میں جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہلی اور آخری بار ڈی لائٹ سیونگ سسٹم متعارف کرایا گیا تو عوام کے لیے یہ ایک عجیب تجربہ تھا۔ اس تبدیلی کا مقصد بھی وہی تھا, بجلی کی بچت اور دن کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانا۔ لیکن چونکہ عوام اس سے پہلے کبھی ایسے نظام کا حصہ نہیں رہے تھے، اس لیے یہ تبدیلی خوشگوار تجربہ کے بجائے الجھن کا سبب بن گئی۔
اس وقت جب بھی کوئی وقت پوچھتا تھا تو لازمی طور پر یہ وضاحت کرنا پڑتی تھی کہ "پرانا وقت” مراد ہے یا "نیا”۔ ایک ہی ملک میں دو طرح کے وقتوں کا چلنا لوگوں کے لیے مزاح کا باعث بھی بن گیا۔ کہیں گھڑیاں آگے بڑھا دی گئیں تو کہیں پرانے وقت کے مطابق چل رہی تھیں۔ دفاتر میں تاخیر، اسکولوں کے اوقات میں فرق، حتیٰ کہ نمازوں کے اوقات میں بھی الجھن پیدا ہو گئی۔ نتیجتاً چند ماہ بعد ہی حکومت نے یہ نظام ختم کر دیا اور پاکستان دوبارہ اپنے اصل وقت پر واپس آ گیا۔
یورپ میں اس کے برعکس نظام اتنا منظم ہے کہ کسی کو سوچنا نہیں پڑتا کہ وقت کب بدلے گا۔ سال میں دو مرتبہ, مارچ کے آخر اور اکتوبر کے آخر میں, گھڑیاں خودکار طور پر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ موبائل فون، گھڑیاں، کمپیوٹر، اور حتیٰ کہ گاڑیاں بھی خود بخود نئے وقت پر سیٹ ہو جاتی ہیں۔ کسی اعلان، بحث یا عوامی تشویش کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
یہ فرق دراصل سوچ اور نظم و ضبط کا ہے۔ جہاں ایک معاشرہ وقت کو قیمتی سرمایہ سمجھتا ہے، وہیں دوسرا معاشرہ وقت کو محض ایک عدد تصور کرتا ہے۔ یورپ میں یہ معمول وقت کی اہمیت، اجتماعی نظم اور سائنسی سوچ کی جھلک ہے۔ وہاں لوگ جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ چلنا ترقی کی علامت ہے، جب کہ وقت کو نظرانداز کرنا زوال کی طرف پہلا قدم۔
ڈی لائٹ سیونگ کا فائدہ صرف روشنی تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کے نظم کو بہتر بناتا ہے۔ سردیوں میں جب سورج دیر سے طلوع ہوتا ہے تو گھڑیاں پیچھے کرنے سے صبح کی روشنی میں انسان کے کاموں کا آغاز بہتر انداز میں ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح جسمانی اور ذہنی توازن برقرار رہتا ہے اور دن کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ وقت کا یہ کھیل محض گھڑیوں کا نہیں بلکہ انسانی شعور کا امتحان ہے۔ جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو بدلتی ہیں، وہی دنیا میں ترقی کرتی ہیں۔ جو وقت کے بہاؤ کو سمجھ لیتی ہیں، وہی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔
اسلام میں بھی وقت کی اہمیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے۔” (سورۃ العصر)
یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وقت انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ جو اسے ضائع کرتا ہے، وہ دراصل اپنی زندگی کو ضائع کرتا ہے۔ وقت صرف گھڑیوں کا نہیں بلکہ زندگی کے فیصلوں، ارادوں اور اعمال کا پیمانہ ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فراغت۔” (بخاری شریف)
یہ حدیث وقت کی اصل حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ انسان جب فارغ ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ وقت بہت ہے، مگر جب موقع گزر جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہی وقت سب سے بڑی دولت تھی۔
یورپ میں وقت کی تنظیم اور اس کی قدر کا یہ نظام اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے جب شعور اور نظم اپناتے ہیں تو زندگی آسان اور پرُسکون ہو جاتی ہے۔ وہاں وقت کے مطابق خود کو ڈھالنا لوگوں کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے، جب کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ وقت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ یہ نظام کامیاب نہ ہو سکا، مگر اس سے ہمیں یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ تبدیلی کے لیے ذہنی آمادگی اور اجتماعی نظم ضروری ہیں۔ اگر ہم وقت کی قدر سیکھ لیں تو ہمارے کئی مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کبھی رکتا نہیں، وہ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی قوم وقت کے ساتھ چلتی ہے اور کوئی پیچھے رہ جاتی ہے۔
ڈی لائٹ سیونگ کا یہ تصور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ وقت کو قابو میں لانے کا مطلب زندگی کو منظم کرنا ہے۔ جب ہم وقت کی درست سمجھ رکھتے ہیں تو نہ صرف خود بہتر بنتے ہیں بلکہ معاشرہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ چلنا، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا، اور روشنی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا دراصل دانائی کی علامت ہے۔
جب قومیں وقت کو اہمیت دیتی ہیں تو ان کی ترقی رک نہیں سکتی۔ لیکن جب قومیں وقت کی قدر کھو دیتی ہیں تو ان کے زوال کی داستانیں لکھی جاتی ہیں۔
یورپ میں گھڑیاں بدلنے کا یہ معمول بظاہر ایک سادہ سا عمل لگتا ہے، مگر درحقیقت یہ اس شعور کی علامت ہے جو وقت کو قیمتی اثاثہ سمجھتا ہے۔
وقت بدلتا رہتا ہے، موسم آتے جاتے ہیں، لیکن جو انسان وقت کے ساتھ خود کو بدلنا جانتا ہے، وہی کامیاب کہلاتا ہے۔
وقت کی قیمت جاننے والے ہی اصل میں زندگی کے قدر دان ہوتے ہیں، اور یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔



