اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے(ایف بی آر)نے تمام فیلڈفارمشنز سے ٹیکس دہندگان کے زیر التوا ریفنڈز کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی کی زیرصدارت ہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام فیلڈفارمشنز اپنی اپنی حدود میں ٹیکس دہندگان کے ریفنڈ کلیمز کی تفصیلات مکمل بریک اپ کے ساتھ تیار کرکے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کو بھجوائیں گے جبکہ اس حوالے سے ایکسپریس کو دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آر کی تمام فیلڈفارمشنز کو ٹیکس دہندگان کے 30 جون2019 تک کے ٹیکس ریفنڈز کی تفصیلات فراہم کرنا ہو گی اور اس میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ساتھ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ری بیٹ و ڈیوٹی ڈرا بیک کی تفصیلات الگ الگ تیار کرکے فراہم کرنا ہو گی۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ فیلڈفارمشنز سے 30 جون تک کے ریفنڈزکی تفصیلات حاصلِ کرنے کا بنیادی مقصد آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ پرفارمنس معیار کے اہداف کے حوالے سے تیاری کرنا ہے اور ریفندز کی ادائیگی کے نئے آٹومیٹڈ نظام کے ذریعے کلیئرنس کیلیے اسٹریٹجی مرتب کرنا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ کارکردگی کے معیار کے تحت جون 2019 تک ریفنڈز واجبات میں 90 ارب روپے تک کی کمی لانا ہے اور رواں سہہ ماہی میں بھی 90 ارب کی کمی لائی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے پاس ٹیکس دہندگان کے اڑھائی سو ارب روپے سے زائد کے ریفنڈ التوا کا شکار ہیں جس کیلیے اب نیا میکنزم متعارف کروایا گیا ہے جس کیلیے رولز بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔ اس نئے نظام کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ٹیکس دہندگان کو سیلز ٹیکس ریفنڈز کی سنٹرلائزڈ ادائیگیوں کیلیے سنٹرلائزڈ سیلز ٹیکس ریفنڈ آفس (سی ایس ٹی آر او) ریفنڈ ڈویڑن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹیکسٹائل،لیدر و گارمنٹس سمیت 5زیرو ریٹڈ برآمدی شعبوں کیلیے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کا نیا نظام متعارف کروادیا ہے جبکہ ٹائر ون میں شامل ریٹیلرز سے سفارتکاروں اور ڈپلومیٹک مشنز کو اشیا کی فروخت و سْپلائی پر زیرو ریٹنگ کی سہولت کو وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایگزمشن سر ٹیفکیٹ ست مشروط کردیا گیاہے اور سیلز ٹیکس رْولز 2006 میں کی جانیوالی اہم ترامیم میں کہاگیا ہے کہ ٹیکس دہندگان کو تمام ریفنڈز کی ادائیگی سنٹرلائزڈ سسٹم کے ذریعے ہوگی اور اس کیلیے سی ایس ٹی آر او ریفنڈ ڈویژن قائم کی جائے گی جس میں تمام مطلوبہ افسران و سٹاف تعینات کیا جائے گا۔
دستاویز کے مطابق ملک بھر کے تمام لارج ٹیکس پیئر یونٹس اور ریجنل ٹیکس آفسز میں یہ ریفنڈ ڈویژن قائم کی جائے گی اور اس ڈویژن کا سربراہ اسسٹنٹ کمشنر ان لینڈ ریونیو اور اسکے عہدے کے برابر کا افسر ہوگا سیلز ٹیکس ایکٹ کی سیکشن 10 اور8 بی کے تحت ٹیکس پیریڈ جولائی 2019 اور اسکے بعد سے ٹیکس دہندگان کی جانب سے ماہانہ ریٹرنز میں فراہم کیے جانے والے ڈیٹا کو ہی ریفنڈ کلیمز پراسیس کرنے اور انکی چھان بین و ایگزامینیشن کیلیے استعمال کیا جائے گا ۔
ٹیکس ریفنڈز کیلیے رسک مینجمنٹ سسٹم(آر ایم ایس)متعارف کروایا جائے گا اور ٹیکس دہندگان کی جانب سے جمع کروائے جانیوالے ریفنڈ کلیمز کی رسک مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے پروسییسنگ ہوگی اور رسک مینجمنٹ سسٹم میں متعارف کروائے جانے والے معیار و پیرامیٹرز کی بنیاد پر ٹیکس دہندگان کے ریفنڈ کلیمز کی خودکار نظام کے ذریعے کٹیگری کا تعین ہوگا اور پہلی کٹیگری کے ریفنڈ کلیمز مکمل آٹومیٹڈ سیلز ٹیکس ای ریفنڈ سسٹم(فاسٹر) کو بھجوائے جائیں گے جبکہ دوسری کٹیگری میں ریفنڈ کلیمز تیز ترین ریفنڈ سسٹم(ای آر ایس) کو بھجوائے جائیں گے اس کٹیگری کے ریفنڈ کلیمز میڈئیم رسک پر مبنی ہونگے ان کیسوں میں تصدیق شْدہ رقم کیلئے ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز(آر پی او)جاری ہونگے جو کہ رقوم کی ادائیگیوں کیلیے سی ایس ٹی آر او کو بھجوائے جائیں گے اور وہاں سے ریفنڈز کی رقم جاری ہوسکے گی جبکہ تیسری کٹیگری کے تحت ریفنڈ کلیمز سیلز ٹیکس آٹومیٹڈ ریپاڑٹری (سٹار) میں بھجوادیے جائیں گے اور یہ کلیمز رْول 29 میں دیے گیے طریقہ کار کے مطابق نمٹائے جائیں گے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ترمیمی سیلز ٹیکس رولز میں ٹیکسٹائل،لیدر،سپورٹس ،سرجیکل اور کارپٹ پر مبنی پانچ زیرو ریٹڈ برآمدی شعبوں کیلئے سیلز ٹیکس ریفنڈ کا الگ سے نظام متعارف کروادیا ہے اور اس کیلیے ترمیمی سیلز ٹیکس رولز میں الگ سے نیا چیپٹر شامل کیا گیا ہے جس میں تمام تر طریقہ کار دیا گیا ہے۔ زرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے زیرو ریٹڈ رجیم میں تبیدلی کے تناظر میں ٹیکسٹائل،لیدر اور گارمنٹس سمیت 5 زیروریٹڈ شعبوں کوسیلز ٹیکس ریفنڈز کی مانیٹرنگ اور انھیں درپیش مشکلات کے ازالے اور سہولیات کی فراہمی کیلیے الگ سے ڈائریکٹریٹ جنرل آف ایکسپورٹ اورئینٹڈ سیکٹرز کے نام سے نیا ادارہ بھی قائم کیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ5 زیرو ریٹڈ شعبوں کی زیر ریٹنگ کی سہولت ختم ہونے کے بعد اربوں روپے کے ریفنڈ کلیمز میں اضافہ ہوگا جس کے بارے میں ان پانچوں شعبوں کے برآمدکنندگان میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ پہلے ہی اڑھائی سو ارب روپے سے زائد مالیئت کے ریفنڈ پھنسے ہوئے ہیں۔