راجہ بشیر عثمانی
آزادکشمیر کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کیلئے ایک بیس کیمپ بننا تھا لیکن بدقسمتی سے1947ء سے اب تک آزادکشمیر میں وہ سب کچھ ہوتا رہا جو آزاد حکومت کے قیام کے مقاصد میں شامل نہیں تھا لیکن وہی ایک کام نہیں ہوا جس کیلئے آزاد کشمیر کا خطہ حاصل کیا گیا تھا یعنی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے منظم اور مربوط اقدام ۔ یہاں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں ، اسمبلیاں کھلونوں کی طرح بنتی اور ٹوٹتی رہیں ، صدارتوں اور وزارتوں کی بندر بانٹ ہوتی رہی ،کرسیوں کی چھینا جھپٹی جاری رہی ، اتحاد بھی بنے ، ادغام بھی ہوئے جماعتیں بنیں بھی اور ختم بھی ہوئیں، نفاذ اسلام اور آزادی کشمیر ہر ایک کا نعرہ رہا اور ہر ایک نے آزادی کی مالا جپی لیکن لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہوتے ہی مسئلہ کشمیر کو کسی سرد خانے میں ڈال دیا جاتا رہا تاکہ محفوظ رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔
اسلام پسند اور آزادی کشمیر کا جذبہ رکھنے والے حساس نوجوان یہ ڈرامہ دیکھتے رہے کڑھتے رہے اور اپنے اپنے طو رپر صدائے احتجاج بھی بلند کرتے رہے لیکن مفاد پرستی اور ہوس اقتدار کے اس نقار خانے میں مخلص اور درد مند نوجوانوں کی پکار کو کون سنتا 60کے عشرے میں ان دیندار اور صالح نوجوانوں میں اس بات کا احساس بہت شدت سے پیدا ہو چکا تھا کہ حکمران او رسیاستدان اس لٹی پٹی اور افسردہ درماندہ ملت کو ساحل تک پہنچانے کے بجائے انہیں بپھری ہوئی طوفانی لہروں اور بھنوروں کی طرف دھکیل رہے ہیں اور ساحل پر بیٹھ کر قوم کی نیا کو بھنور میں ڈبونا چاہتے ہیں ان حالات نے نوجوانوں کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا اس احساس نے اسلامی تحریک طلبہ ، اسلامی تنظیم طلبہ اور اسلامی وحدت طلبہ کی شکل اختیار کی ان تینوں تنظیمو ں نے ایک ہی مقصد اور ایک منزل …… اسلامی انقلاب اور آزادی کشمیر کی جانب سفر شروع کر دیا۔
70ء کے عشرے کے اوائل میں مذکورہ طلبہ تنظیمیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ مقصد اور نصب العین کی وحدت کے ساتھ ساتھ تنظیمی وحدت کی بھی اشد ضرورت ہے یوں تینوں تنظیمیں باہم مدغم ہو کر ایک بڑی تنظیم کی شکل اختیار کرنے پر تیار ہو گئیں چنانچہ بائیس مئی 1972ء کو آزادکشمیر کی مذکورہ تنیوں تنظیمیں باہم مدغم ہو کر جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ کا روپ اختیار کیا جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے قیام سے ہی جہاں طلبہ کو اسلام کی دعوت دینے انہیں دینی ماحول فراہم کرنے لٹریچر کے ذریعے ان کی فکرو نظر کی تطہیر او رایک ہمہ جہتی نظام تربیت کے ذریعے ان کے سیرت و کردار کی اسلامی اصولوں پر تعمیر جیسے عظیم کام کا بیڑہ اٹھایا وہاں تحریک آزادی کی بھرپور جدوجہد شروع کر دی اس وقت تک عوامی سیاست میں بھی اور تعلیمی دنیا میں بھی مسئلہ کشمیر کو محض ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا سیاسی قائدین اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کیلئے اسے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے تھے جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ نے آگے بڑھ کر اس مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں طلبہ ، عوام ، حکمرانوں او ربیرونی دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کیا اس سلسلے میں جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ نے لاہو رمیں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے شرکاء کی خدمت میں انگریزی میں لکھا ہوا سولہ صفحات پر مشتمل ایک میمورنڈم پیش کیا یوں یہ اعزاز صرف اسلامی جمعیت طلبہ کو حاصل ہوا کہ اس نے دنیا بھر کے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر کی طرف متوجہ کیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو پر بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا بھوت اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ انہو ںنے بنگلہ دیش کو بھی کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مشروط طورپر تسلیم کر لیا پھر وہ بھارت یاترا روانہ ہوئے اور شملہ کے پر فضا مقام پر بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے ساتھ طویل راز و نیاز کئے جنہیں دو طرفہ مذاکرات کا نام دیا گیا ان دو طرفہ مذاکرات کا فوری طور پر نتیجہ معاہدہ شملہ کی صورت میں برآمد ہوا جس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر محض زیب داستان کیلئے کیا گیا ہے کہاجاتا ہے کہ اس موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان کشمیر کی تقسیم کا فارمولا بھی اصولی طور پر طے پاگیا تھا اور بھٹو نے اس منصوبے پر عمل درآمد کروانے کیلئے آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عارضی جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر لیا اور آزادکشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے کوششیں شروع کر دیں انہوں نے آزادکشمیر کا تفصیلی دورہ کر کے عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوششیں بھی کیں لیکن چونکہ اسلامی جمعیت طلبہ اس قسم کی تجویز کے ہولناک نتائج سے با خبر تھی اس لئے اس نے آزاد کشمیر کوپاکستان کا صوبہ بنا کر کنٹرول لائن کو مستقل کرنے کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کی اسی جرم کی پاداش میں بھٹو حکومت نے بدنام زمانہ ( ایف ایس ایف ) کے ذریعے جمو ںوکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رائو محمد اختر کو اغواء کیا اور کئی دن تک دلائی کیمپ میں ان پر تشدد کے بدترین حربے آزمائے جمعیت کی اس جراتمندانہ مہم کے نتیجے میں رائے عامہ کا اس قدر دباؤ پڑا کہ بھٹو حکومت اس منصوبے کو عملی جامعہ نہ پہنا سکی ۔
جمعیت نے آزادکشمیربھر کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے کے لیے 1974 ء میں آزاد کشمیر بھر کی طلبہ یونینوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل کشمیر کونسل قائم کی جس نے طلبہ عوام ، سیاستدانوں اور حکمرانوں پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر زور دیا ۔ علاوہ ازیں جمعیت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پائی جانے والی بے حسی اور عدم دلچسپی کی فضاء کو ختم کرنے کے لئے جلسوں ، جلوسوں ، پوسٹرز ، پمفلٹس اور دوسرے ذرائع استعمال کر تے ہوئے بھر پور مہم چلائی تاکہ رائے عامہ کی توجہ اس اصل اور بنیادی مسئلے کی طرف مبذول کر ائی جا سکے خصوصاً طلبہ کو تحریک آزادی کا ہر اول دستہ بنانے اور انہیں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار کرنے کی غرض سے جمعیت نے مختلف کانفرنسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا ۔ اسلامی جمعیت طلبہ چونکہ دنیا بھر کی بائیس مسلمان طلبہ تنظیموں کے وفاق انٹر نیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس آر گنا ئز یشن کی بھی بنیادی ممبر ہے اس طرح دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کی بھی جمعیت کو رکنیت حاصل ہے ۔ اس لئے جمعیت نے دنیا کے مختلف ممالک میں ان تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور ان سے کشمیری عوام کے حق میں بھر پور حمایت اور تائید حاصل کی ۔ جمعیت کی کوشش سے پاکستان سے باہر افغانستان ، ایران ، ترکی ، بنگلہ دیش کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا ،ملائیشیا، انڈونیشیا اور خود بھارت میں بھی مسلمان نوجوانوں کو کشمیر کے مسئلے سے روشناس کرایا گیا اور ان سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی تائید حاصل کی گئی اسی طرح اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس ، غیر وابستہ تحریک کی کانفرنس ، سارک کانفرنس اور دوسری عالمی کانفرنس کے موقع پر جمعیت نے ہمیشہ دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو میمورنڈم ، خطوط اور ٹیلی گرامز کے ذریعے بھارتی مظالم سے آگاہ کیا اور مسئلے پر ان کی حمایت حاصل کی ۔ آزادکشمیر میں اسلامی جمیعت طلبہ کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے بھی 1977ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں تنظیم مقبوضہ جموں وکشمیر میں قائم کر لی وہاں جمعیت کے قیام سے تحریک آزادی کے تن مردہ میں زندگی کی روح دوڑ گئی او رکشمیر کے طول وعرض سے نوجوان جمعیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے شروع ہو گئے حریت رہنما محمداشرف صحرائی اس کے پہلے ناظم اعلیٰ بنے ۔1980ء میں اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ جموں وکشمیر نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کیلئے سری نگر میں انٹر نیشنل ریلی کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس میں دنیا بھر کے مسلم قائدین اور آزادی پسند اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں کو مدعو کیاگیا۔ اندرا حکومت کی ایماء پر کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ فاروق عبداللہ نے کانفرنس پر پابندی لگا دی لیکن جمعیت کے کارکن ڈٹ گئے اور تمام پابندیوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے مقررہ تاریخ کو ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ میں پہنچ گئے بھارتی فوج نے جلسہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا اور لا تعداد نوجوانوں کو گرفتارکر کے جیلوں میں دھکیل دیا ۔ گرفتار کئے جانے والوں میں اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ کشمیر کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ شیخ تجمل الاسلام اور دوسرے قائدین بھی تھے مقبوضہ کشمیر جمعیت پر پابندی کے بعد آزادکشمیر میں اسلامی جمعیت طلبہ نے تحریک آزادی کے تمام محاذوں پر بیک وقت اپنا کام تیز کر دیا۔
1980ء کے عشرے کے وسط میں تحریک آزادی کشمیر نے نئی کروٹ لی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے تحریک آزادی کشمیر کو تیز تر کرنے کامنصوبہ بنایا اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا تو جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ نے صبح آزادی کا پیغام لے کر بستی بستی کوچہ کوچہ پہنچ کر بیس کیمپ کے عوام کو بیدار کیا ۔23مئی 1991ء کو میرپور میں اس وقت کے ناظم جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ نثار احمد شاہق کی قیادت میں عظیم الشان تاریخ ساز انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا بلا شبہ یہ آزاد کشمیر کے نوجوانوں کا سب سے بڑاپروگرام تھا جس میں کیل سے لے کر بھمبر تک سکول وکالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے علاوہ عام نوجوانوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی ۔ اس کانفرنس میں انڈونیشیا ، مراکش ، یورپ کے طلبہ کی اسلامی تحریکوں کے قائدین کے علاوہ جہاد افغانستان کے ہیرو سابق وزیراعظم افغانستان انجنیئر گلبدین حکمتیار ، جہاد فلسطین ، جہاد فلپائن اور جہاد کشمیر کے مجاہد رہنمائوں نے شرکت کی جبکہ کشمیر بھر کے ہزاروں نوجوانوں نے اس تاریخی اجتماع میں حلف شہادت پڑھا صرف تین مہینے بعد جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ کے سجاد خواجہ ارشد مجید اور عرفان احمد کا نیزہ پیر کے مقام پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے جب بھی کوئی اعلان کیاہے عملاً اس کو کر کے بھی دکھایا ہے اس کے بعد شہادتوں اور عزیمتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو کہ ہنوز جاری ہے۔ارشد مجید، بشارت عباسی ، راحیل شہید ، مقصود الزمان بٹ ، مظفر نعیم چوہدری ، سید طارق محمود ، خواجہ اسحاق احمد ، محمد عثمان بٹ ، محمد مبین ، سیف الرحمن ، ندیم یاسین ، عامر حفیظ ، راجہ محمد افضل اور دیگر سینکڑوں شہداء جمعیت نے اپنے خون سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو نئی توانائی عطا کی قربانیوں اور شہادتوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ 15-16-17اکتوبر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہونے والا جمعیت کا اجتماع عام اسلامی جمعیت طلبہ کے ان ہزاروں عظیم شہداء کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اسلام کی سربلندی اور آزاد کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اجتماع عام سے آزادکشمیر کے نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو نیاجذبہ اور ولولے ملے گا اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف نوجوانوں کو نئی توانائی بھی ملے گی یہ تاریخی اجتماع پاکستان کے استحکام اور تحفظ کے لئے اور مسلمہ امہ کو متحد و منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا اس اجتماع میں کشمیری نوجوان اس بات کا عزم کریں گے کہ جن عظیم مقاصد کیلئے جمعیت کے نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ان مقاصد کی تکمیل تک جدوجہد جاری رہے گی کشمیر کی آزادی اور اسلامی انقلاب کیلئے جمعیت کو اپنا سفر جاری رکھنا ہے بلا شبہ مایوسیوں کے اندھیرے میں جمعیت اُمید اور روشنی کی کرن ہے ۔ جمعیت نے قوم وملک کی صحیح خطوط پر رہنمائی کرنی ہے۔ خدا کرے یہ اجتماع مسلم اُمہ کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنے او رکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی نوید آزادی بھی دے ۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی لازوال تاریخ اور بے داغ ماضی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جمعیت نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ ، سالمیت پاکستان کیلئے تاریخ ساز جدوجہد کی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت ہزاروں کارکنان جمعیت نے البدر الشمس کی صورت میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں ختم نبوت کی تحریک میں یہ جمعیت ہی تھی جس نے کراچی تا خیبر تحریک کو منظم کرنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا او راس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے حکمرانوں نے مجبور ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ طلبہ یونیز کی بحالی کی تحریک یاطلباء کے مسائل جمعیت نے ہر دور میں آگے بڑھ کر پاکستانی نوجوانوں کی قیادت کی اور طلباء کو ان کے حقوق دلائے روسی فوجیں جب افغانستان میں داخل ہوئی تو کارکنان جمعیت افغان بھائیوں کی مدد کیلئے جہاد کے میدان میں اترے اور اپنا گرم گرم لہو جہاد افغانستان میں پیش کیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم و محکوم بھائیوں نے جب پاکستانی ملت کو مدد کیلئے پکارا تو پاکستان کے ہر شہر اور قصبے سے جمعیت کے نوجوانوں نے کشمیری بھائیوں کی پکار پر لبیک کہا اور وادی پر خار میں قدم رکھے ہزاروں کارکنان جمعیت کشمیر کی وادی میں قابض بھارتی فوج کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے کارکنان جمعیت آج بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے برسر پیکار ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کے ہر محاذ پر اپنے حصے کا بھرپور کردار اداکر رہی ہے کارکنان جمعیت کی مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں نے کشمیریوں کو نیا عزم اور حوصلہ دیا اور کشمیریوں کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ جدوجہد آزادی میں تنہا ہیں ۔ کراچی تا خیبر جمعیت کے نوجوانوں کی جہاد کشمیر میں عملی شرکت نے پوری پاکستانی قوم کا قرض اتاردیا ہے جمعیت نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو اسلامی رنگ میں رنگنے اور تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول کے قیام کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں وہ ادارے جہاں رقص و سرور اور شراب وکباب کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں وہ ادارے جہاں فرسٹ ایئر فول کے ذریعے نئے آنے والے طلباء کا مذاق اڑایا جاتا تھا انہیں تنگ کیا جاتا تھا جمعیت نے ان تعلیمی اداروں میں رقص و سرور اور شراب و کباب کی محلفوں کو ختم کر کے سیرت النبیِۖ پر پروگرامات ترتیب دئیے تعلیمی اداروں میں سیرت سرور دو عالم ۖکے موضوعات پر لیکچرز کا اہتمام کیا گیا پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجز میں اسلامی ودینی ماحول پیدا کیاگیا ۔ فرسٹ ایئر فول جیسے بہودہ پروگرام ختم کر کے جمعیت نے نئے آنے والے طلباء کی رہنمائی و مدد کے پروگرام ترتیب دئیے نو وارد طلباء کے اعزاز میں استقبالیہ تقریبات کا اہتمام کیا جانے لگا یہی نہیں جمعیت نے بے سہارا غریب طلباء کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دی امداد طلباء فنڈ قائم کر کے جمعیت نے ہزاروں طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کئے ملکی سلامتی و تحفظ کے حوالے سے جمعیت نے ہمیشہ آگے بڑھ کر قوم و ملک کی رہنمائی کی ہے ملک کو جب کبھی قدرتی آفات کا سامناکرنا پڑا سیلاب ،زلزلہ اور دوسری آفات کے موقع پر کارکنان جمعیت نے متاثرین کی مدد کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا دو برس قبل ہونے والے زلزلے کے بعد جمعیت نے متاثرین زلزلہ کی بحالی کیلئے پورے ملک میں امدادی کیمپ قائم کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کیا زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے طلباء کی تعلیم وتربیت کیلئے جمعیت نے تعلیم وتدریس کے متعدد کیمپ قائم کر کے آزادکشمیر اور بالا کوٹ کے طلباء کو چھ ماہ تک مفت تعلیمی سہولتیں مہیا کیں اور ہزاروں طلباء کے طعام و قیام کا انتطام کیا۔
0 0 11 minutes read