اہم خبر

اسامہ ستی کے قتل پر ریاست خاموش کیوں؟ کرائم سین بدلنے کی کوشش نے اسلام آباد پولیس کو ننگا کردیا ساہیوال کے ملزم پھانسی چڑھتے تو یقینا اسامہ ستی یوں سرعام نہ مارا جاتا سول سوسائٹی اسامہ ستی کے قتل کو لاوارث نہ چھوڑے وگرنہ کل کسی اور کالخت جگر مارا جائیگا ریاست کن مشغلوں میں لگی ہے ؟ کہ اسکے بیٹے سڑکوں پر محافظوں کے ہی ہاتھوں مارے جارہے ہیں؟ ایک سابق وزیراعظم کی کتاب چھپنے والی ہے جو بہت کھپ ڈالنے والی ہے؟

(عقیل احمد ترین)
اسلام آباد کے سپوت اسامہ ستی کی پولیس کے ہاتھوں ” شہادت” پر جو سوالات معزز عدالت نے گزشتہ روز اٹھائے اور اس پر پولیس کی طر ف سے ” کرائم سین”کو اپنی فیور میں لانے کی کوشش بتا رہی ہے کہ اسلام آباد میں مثالی پولیس کی تربیت اور ٹریننگ بھی روایتی پولیس جیسی ہی ہے،ظالم ،راشی اور درندہ صفت
۔اسلام آباد کی پولیس کو سلطان اعظم تیموری نے جس سانچے میں ڈھالنے کی پلاننگ کی تھی وہ سانچہ شاید کسی نے تبدیل کردیا،تیموری کےدور میں اسلام آباد پولئس کو یہ EDGEمل رہا تھا کہ شاہد یہ پولیس دوسرے صوبوں کی پولیس کی نسبت زیادہ فعال اور کم کرپٹ وظالم ہے ۔لیکن جس انداز میں اسامہ ستی کو سرعام عین چوک میں گھیر کر مارا گیا یہ اسلام آباد پولیس کی اہلیت اور اسکے بھرتی و ٹریننگ کے طریقہ کار پہ سوالیہ نشان ہے، اسامہ کی ہلاکت کو پولیس کے وکیل اور کیس کے تفتیشی نے جس ڈھیٹائی سے MANUPLATE کرنے کی کوشش کی تو اس سے یہ بھی طے ہوگیا کہ اسلام آباد سمیت پورے ملک کی پولیس کا ڈھانچہ ” اصلاح” کا تقاضا کررہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی شاہد انسداد دہشت گردی کی معزز عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات نما آبزرویشنز کے بعد آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار کو تبدیل کرنے کے احکامات جاری کئے ۔اس پہ سوال یہ ہے کہ کیا اس تبدیلی سے اسامہ جیسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟ کیا نئے پولیس چیف پولئس کو کمیونٹی پولیسنگ کے لیول پہ ڈھال سکیں گے؟
اسامہ ستی کو جس انداز میں پولیس نے قتل کیا ہے اس سے پولیس فورس میں درندگی ثابت ہوگئی ہے ۔یقینا اس پر اسامہ ستی کی شہادت کو سول سوسائٹی نے تحریک میں بدل دینا ہے کیونکہ آج اگر اسامہ ستی جیسا لخت جگر شاہراہ عام پر اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تو کل کسی اور کا لخت جگر بھی مارا جاسکتا ہے، میں یہاں حکومت کو دو ش نہیں دیتا حکومت تو چند سیاسی مفادات کے تابع افراد کے جھمگھٹے کا نام ہے ،مجھے ریاست سے اس معاملے پر شکوہ اور شکایات ہیں ” ریاست عوام کیلئے ماں کا درجہ رکھتی ہے اگر ریاست بطور ماں سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانیوالے سہمے ہوئے معصوم بچوں کے چہرے یاد رکھتی اور سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچاتی تو مجھے یقین کامل ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر موت کا یہ بھیانک رقص نہ ہوتا !
میں سمجھتا ہوں کہ اسامہ ستی کے والد نے جو سوالات اٹھائے اور بعد میں جو عدالت نے اعتراضات اٹھائے اسکے بعد کم از کم وزیر داخلہ کا استعفیٰ بنتا ہے ۔ریاست اس وقت نجانے کن مشغلوں میں مصروف ہے ۔یہاں پر ہر سال ہزارہ برادری کے پیاروں اور راج دلاروں کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا جاتا ہے ۔پھر ہزارہ برادری ان نعشوں کو رکھ کر کئی دن تک احتجاج کرتی ہے لیکن ان کو انصاف نہیں ملتا ۔تو بتایا جائے کہ ریاست کب جاگے گی ؟ سانحہ ساہیوال ، سانحہ ماڈن ٹائون اور اب اسامہ ستی قتل کیس ریاست کو للکار رہے ہیں کہ ریاست جاگے اور اپنے بچوں کی حفاظت کا بندوبست کرے۔
ریاست جب کام نہ کررہی تو سار ا بوجھ عدالتوں پر آجاتا ہے ۔ہزارہ برادری اور اسامہ ستی کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانا اب عدالت عظمیٰ کا کام ہے ۔ اگر وزیراعظم عمران خان یا ریاست کی مشینری قاتلوں تک نہیں پہنچ سکتی ۔ قتل کے محرکات کو طشت ازبام نہیں کرسکتی تو یہ فرض عدالتوں کو نبھانا پڑیگا۔
پیارے پڑھنے والو!
بہت دن پہلے اسلام آباد کے باخبر دوستوں سے یہ خبر ملی تھی کہ ایک سابق وزیراعظم کی کتاب آنیوالی ہے ۔ اس کتاب میں اس ملک کے سٹیٹ کرافٹ کو کیسے کچلا گیا ؟اور کس طرح اسکی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں ؟ اس حوالے سے بہت کچھ ہے،سنا ہے کہ وہ کتاب پروف ریڈنگ کے مراحل میں ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ چھپنے کا ہنر جانتی ہے کہ نہیں ؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button