اہم خبر

نو ایزہول رول

زمہ دار / ڈاکٹر ہمایوں شہزاد

نو منتخب صدر جو بائیڈن نے صدارت کے پہلے دن ایک کمال کا ایگزیکٹو آرڈر پاس کیا. وہ صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت کے بالکل برعکس تھا. بائیڈن نے کہا کہ "وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے اور نئے امریکی حکومت کے ہزار سے زائد عہدیداروں کو میرا واضح حکم ہے کہ تمام افراد ہر صورت میں ایک دوسرے کا احترام کریں گے. میں مذاق نہیں کر رہا ہوں. اگر میرے علم میں آیا کہ تم میں سے کسی نے اپنے کولیگ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے یا دھونس جمائی ہے تو میں تمہیں فوری طور پر، کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دوں گا. کوئی اگر مگر نہیں چلے گا ”

لیڈرشپ کی سائنس کے اعتبار سے یہ ایک حیران کن حکم ہے، لیکن ٹرمپ کے دور حکومت کی تلخ یادیں الٹنے کے لئے اس سے بہتر کوئی حکم نہیں ہوسکتا تھا. ٹرمپ دور میں صدر خود سب سے بڑا بڑبولا اور دھونس دینے والا تھا اور پورا نظام حکومت ہی دھونس کے اوپر چل رہا تھا. بائیڈن کا یہ حکم بتاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آچکی ہے.

دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیڈن نے یہ کوئی نادر شاہی حکم جاری نہیں کیا بلکہ اس نے لیڈرشپ تھیوری کے ایک معروف رول کو نافذ کیا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں. چونکہ اپنے ہاں بھی ٪80 زندگی دھونس کے زور پر گزاری جاتی ہے تو سوچا آپ کو اس دلچسپ ضابطے سے روشناس کراؤں جو بائیڈن نے استعمال کیا اور شاید پچاس، سو سال بعد ہم بھی استعمال کر سکیں.

دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ سٹن نے 2007 میں کمال کی کتاب لکھی. جس کا نام بہت اچھوتا تھا. "نو ایزہول رول”.( No Asshole Rule). یہ کتاب شائع ہوئی اور اس نےتہلکہ برپا کردیا. ایزہول رول دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشنز میں استعمال ہوا اور اس کے بے مثال نتائج سامنے آئے. ایزہول کا جو بھی اردو، پنجابی دلچسپ ترجمہ آپ کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں.

سٹن کی تھیوری یہ تھی کہ ہر دفتر، ادارے، کمپنی میں ایزہول پائے جاتے ہیں جو بدتمیزی، دھونس اور دھکے سے اپنا کام چلائے رکھتے ہیں. سب سے پہلے اس نے ایزہول کی نشانیاں بتائیں. پہلی تو یہ ہے کہ کہ ان کا سامنا کرنے کے بعد دن برباد ہوجاتا ہے، اپنی ہتک اور تضحیک کا احساس ہوتا ہے اور لوگ اپنے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں. دوسری نشانی یہ کہ ایزہول ہمیشہ اپنے سے کم طاقتور پر دھونس اور رعب جماتا ہے.

ایزہول کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ دھمکیاں، گالیاں وغیرہ دیتا ہے، طنز کرتا ہے، طعنے دیتا ہے، شرمسار کرتا ہے، پیٹھ پیچھے برائی کرتا ہے، تیوری چڑھائے رکھتا ہے اور جابجا تضحیک کرتا رہتا ہے( آپ کے ذہن میں یہ سطریں پڑھ کر بہت سے "دوستوں اور کولیگز” کے چہرے گھوم ریت ہوں گے).

سٹن کی تھیوری یہ بھی بتاتی ہے کہ کچھ ایزہول عارضی ایزہول ہوتے ہیں اور موڈ اوپر نیچے ہوجانے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں. کچھ ایزہول مستقل ایزہول ہوتے ہیں، یعنی وہ ایزہول ہی پیدا ہوتے اور اسی طرح سے جان، جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں.

سٹن کا یہ کہنا تھا کہ ایزہول کے ساتھ کام کرنے والے عموماً سٹریس اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں دل کی بیماریاں، ہائپرٹینشن اور دیگر عوارض پیدا ہوجاتے ہیں. تقریباً ٪25 لوگ ان کی وجہ سے نوکری چھوڑ دیتے ہیں. ہر سال ان کی وجہ سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے.

نو ایزہول رول کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں ایزہول کو برداشت نہ کیا جائے چاہے وہ ادارے کا سب سے قیمتی اثاثہ ہی کیوں نہ ہو. ادارے میں تمام تر کام کرنے والوں کو معلوم ہو کہ بدتمیزی اور بکواس برداشت نہیں کی جائے گی اور کرنے والا اگر چیف ایگزیکٹو بھی ہے تو اس کو رعایت نہیں ملے گی.

بائیڈن نے تو آغاز میں ہی دانت دکھا دیے. اگر اپنے ہاں مختلف اداروں میں "نو ایزہول رول” اپلائی کیا جائے تو کیسا رہے گا؟
اگر ہمارے اداروں میں نو ایزہول رول نافذ ہو گیا تو افسران کی تعداد آدھی بھی نہیں رہے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button