سچ تو یہ ہے،
بشیر سدوزئی،
کشمیری کمیونٹی ڈوگرہ کشمیر کی آئینی حیثیت اور 1947 کے اقدامات کے حوالے سے دو بیانیے میں تقسیم ہے ۔ غالب اکثریت تو بزرگوں کے موقف پر قائم اور ان کے اقدامات پر فخر کرتی ہے چاہئے وہ قرار داد الحاق پاکستان ہو، 15 اگست کا سیاسی ٹیکری سے اعلان جہاد، دوتھان، نیلابٹ، ہڈہ باڑی کا واقعہ ہو ، جسہ پیر پر ہونے والا حلف، راجہ سخی دلیر کا رام پتن پر حملہ یا مجائدین کی طرف سے اس انداز میں دوسرے حملے یا اقدامات ۔ یہ سوچ والے ان اقدامات کو تاریخی کارنامے مانتے ہیں کہ اس وجہ سے آزاد کشمیر کا علاقہ نصیب ہوا۔ گو کہ یہ بہت کم ہے لیکن جو بھی ہے غنیمت ہے اور اللہ تعالی کی رحمت اور احسان کہ آج ہمارا وہ حشر نہیں ہو رہا جو سری نگر کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ بزرگوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ ڈوگرہ کشمیر کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر اس سے بھی بدتر مظالم ہو رہے تھے جو آج مقبوضہ کشمیر میں ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ آج کشمیر کا مسئلہ ڈوگرہ اور شیخ عبداللہ کا پیدا کردہ ہے جو وقت گزارنے کے لیے خود مختاری کے نام پر کشمیریوں کو دھوکہ اور بھارت کے ساتھ الحاق کا ساز باز کرتے رہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ ڈوگرہ بھارت کے ساتھ شامل ہونے کے لئے وقت کی انتظار اور بھانہ تلاش کر رہا تھا ۔اگر وہ خود مختاری چاہتا تو 15 اگست کو اقوام متحدہ کو ممبر شپ کی درخواست دیتا اور نہ ہی شیخ عبداللہ نے ایسا کوئی مطالبہ کیا۔ پھر یہ دعوی تو درست نہیں کہ یہ لوگ خود مختار ریاست چاتے تھے ۔ دوسرا گروپ تعداد میں کم سہی مگر اپنی سوچ کو لوگوں تک پہنچا رہا ہے کہ ڈوگرہ ہری سنگھ کشمیر کی واحدت کی نشانی اور آئنی حکمران تھا۔ بعض نوجوان تو اس کو روحانی باپ تک لکھتے اور کہتے ہیں ۔ ڈوگرہ کی محبت میں اس قدر آگئیں نکل گئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سردار محمد ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور ان کے ساتھیوں کو بے ہودہ القاب اور گالیاں دیتے ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے 1947میں ریاست کے اندر گڑھ بڑھ کر کے قبائلیوں کو مداخلت کی دعوت دی جس کی وجہ سے ڈوگرہ کو مجبور کیا کہ کشمیر بچانے کے لیے بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کرے ۔ اس سوچ کے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ کشمیر سے پاکستان پہلے فوجیں نکالے اس کے بعد بھارت کو کہا جائے ۔ ایسے لوگ زیادہ طر جنیوا، سزرلینڈ اور یورپ کے دیگر علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں نہیں آتے البتہ کبھی کبھار بھارت کا دورہ کرتے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جو بین الاقوامی لابنگ اور ہائبرڈ جنگ شروع کر رکھی ہے، اس میں کافی حد تک بھارت کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اور مقبوضہ کشمیر میں برسرپی کار مجائدین آزادی کی جدوجہد کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں بھی کبھی کبھار ایسی آوازیں نکلتی ہیں لیکن ان کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے خود ڈوگرہ کا جانشین کرن سنگھ کیا کہتا ہے جو بھارت اور ڈوگرہ کشمیر کے ساتھ ہونے والے معائدے کے موقع پر موجود تھا۔ اس کی ذاتی وئیب سائیڈ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بیان اس وقت کا ہے جب بھارت نے کشمیر کی اندرونی خود مختاری کو ابھی ختم نہیں کیا تھا۔ ” میں دفعہ 370 کے حوالے سے پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں پائے جانے والے شدید تنازعہ سے پریشان ہوں ، وزیر اعظم کے دفتر میں وزارت داخلہ کے ایک قابل اعتراض بیان سے یہ سلسلہ جاری ہوا۔ سوال انتہائی حساس ہے اور اسے ٹھنڈے اور پختہ انداز میں سنبھالا جانا چاہئے۔ دونوں طرف سے جاری کردہ ہر طرح کے بیانات سے ریاست جموں و کشمیر میں مزید ہنگامہ اور تناؤ پیدا ہوگا۔ یاد رہے کہ میرے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے اکتوبر 1947 میں غیر معمولی حالات میں اس وقت معائدے پر دستخط کیے تھے جب پاکستان میں مقیم قبائلی حملے کی وجہ سے ایک مکمل پیمانے پر جنگ ہورہی تھی۔ یہ سچ ہے کہ معائدہ بالکل اسی طرح کا تھا جیسے تمام دیگر سابقہ صوبائی ریاستوں کے دستخط شدہ دستاویز تھیں۔ تاہم ، جہاں بعد میں دیگر ریاستوں نے انضمام کے معاہدوں پر دستخط کیے ، وہاں جموں و کشمیر کے بقیہ ملک کے ساتھ تعلقات خاص حالات کے زیر انتظام تھے ، اور اسی وجہ سے اسے ایک خاص مقام دیا گیا۔ جموں و کشمیر کا آئین جو میں نے 1957 میں دستخط کیا تھا ، اب بھی نافذ ہے۔ یقینی طور پر جے اینڈ کے ہندوستان کا ایک ‘اٹوٹ انگ’ ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی برابر سلوک کیا جائے۔ ہانگ کانگ چین کا ایک ‘اٹوٹ انگ’ ہے لیکن اس کو ایک خصوصی حثیت دی گئی ہے۔ حقیقت میں پوری دنیا میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں ، خاص حالات کی وجہ سے ، کچھ علاقوں یا خطوں کو خصوصی طور پر تقسیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ علیحدگی کی تمام باتیں قطعا ناقابل قبول ہیں اور اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں ، لیکن مکمل ضم ہونے کا نقطہ نظر بھی مناسب نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ میرے والد کے 84،000 مربع میل ریاست کا 50 فیصد رقبہ در حقیقت ہمارے قبضے میں نہیں ہے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوام متحدہ کی قرار داد جنگ بندی کے بعد سے ہی یہ پاکستان کے کنٹرول میں ہے ، اور پاکستان نے اس سرزمین کا کافی حصہ چین کو دے دیا ہے۔ ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ ریاست کے تین خطوں جو ہمارے ساتھ ہیں ، کشمیر ، جموں اور لداخ میں – عوام کی اکثریتی رائے اس مسئلے پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ میری تمام متعلقہ لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ برائے مہربانی بیان بازی کو ختم کریں اور وزیر کے بیان کو حکومت کے لیے پیچیدہ اور مشکل صورتحال میں نہ ڈالنے دیں۔ جموں وکشمیر کے مسئلے کو متنازعہ انداز میں دیکھنا ہوگا جس میں بین الاقوامی جہت ، آئینی حیثیت ، قانونی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی پہلو بھی شامل ہیں۔ اس طرح کے لازمی جائزے کی ضرورت باقی ہے ، لیکن اس کا مقابلہ محاذ آرائی کے بجائے باہمی تعاون اور اعتماد سے کرنا ہے۔” کرن سنگھ ۔ اس پورے بیان میں کرن سنگھ کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ کا اعتراف کرتا ہے خود مختار ریاست نہیں، البتہ اندرونی خود مختاری کا حامی تو ہے ساتھ میں بھارت کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ اگر اس کو ختم بھی کرنا ہے تو باہمی تعاون اور اعتماد کے ساتھ، مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر اندرونی خود مختاری ختم کریں تاکہ ریاست میں افراتفری نہ ہو ۔ کرن سنگھ تینوں اکائیوں کی سوچ میں تضاد کی جو بات کر رہا ہے وہ یہ کہ جموں و لداخ کی غالب اکثریت بھارت کے ساتھ رہنا چاتی ہے جب کہ وادی کے عوام اس کے خلاف ہیں ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کرن سنگھ کے والد کی ریاست تو جموں ہی تھی، کشمیر کو عوام سمیت خریدا، راجوری، پونچھ لداخ سمیت گلگت بلتستان کی کئی چھوٹی ریاستوں پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا۔ جن جن علاقوں کے عوام کو 1947 میں موقع ملا انہوں نے اپنا علاقے ڈوگرہ سے واپس لئے جب اس نے دیکھا کہ کشمیر بھی ہاتھ سے جا رہا ہے تو بھارتی فوجوں کو دعوت دے دی۔27 اکتوبر کو فوجیں سری نگر اتری 28 اکتوبر کو سری نگر میں بھارتی فوجوں کے خلاف احتجاج ہوا ۔ صرف ایک دن بعد ہی 13 کشمیریوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ اس کے باوجود وادی کے عوام ماننے کے لیے تیار نہ تھے مگر وادی کے عوام کے ساتھ شیخ عبداللہ نے خود مختاری کے نام پر دھوکہ کیا۔ ڈوگرہ اور شیخ عبداللہ کی کون سی خود مختاری، کیسی خود مختاری ۔