اسلام آباد 10 فروری : برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمز نے غیر قانونی طور پربھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کشمیر کے بارے میں کل جماعتی پارلیمانی گروپ کے مراسلے پر برطانوی حکومت کے رد عمل پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی فوائد کے لئے انسانی حقوق کا سودا نہیں ہونا چاہئے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق رکن پارلیمنٹ ابراہمز نے اپنے سوشل میڈیا اکاو ¿نٹ پر پوسٹ کئے گئے ایک ٹویٹ میں یکم فروری 2021 کو برطانیہ کے وزیر مملکت برائے جنوبی ایشیا و دولت مشترکہ کی طرف سے موصولہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حکومت نے وزیر اعظم کے دورے سے قبل بھارت کے ساتھ کسی بھی تجارتی معاہدے میں کشمیر پر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کل جماعتی پارلیمانی گروپ کے خط کا جواب دیا ہے ۔انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہاکہ معاشی فوائد کے لئے انسانی حقوق کا سودا نہیں ہونا چاہئے۔انہوںنے کہاکہ ہم حکومت پر نظر رکھیں گے اور اس کا محاسبہ کریں گے ۔برطانیہ کے وزیر مملکت برائے جنوبی ایشیا اور انسانی حقوق کے وزیر نے اپنے خط میں رکن پارلیمنٹ ابراہمز کو لکھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تجارت ہماری معیشت اور مستقبل کی خوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے تاہم اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی میںبنیادی انسانی حقوق پر کوئی سمجھوتہ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم انسانی حقوق کو چھوڑ کر تجارت کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔ ہم دونوں چیزوں کو اپنے شراکت داروں کے ساتھ گہرے ، پختہ اور وسیع تر تعلقات کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔وزیر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ ہم کشمیر کی صورتحال پر قریب سے نظررکھے ہوئے ہیں اور نئی دہلی میں ہمارے ہائی کمیشن کے عہدیداروں نے جلد از جلد علاقے کے دورے کی اجازت کی درخواست کی ہے۔ہم کنٹرول لائن /جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کی خبروں سے پریشان ہیں۔ ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور رابطوں کے ذرائع کو بہتر بنائیں۔ وزیر مملکت نے مزید کہا کہ برطانیہ کا دیرینہ موقف یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کوکشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیر کے بارے میں دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے بھارت کے وزیر اعظم مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دونوں پر بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
0 3 2 minutes read