تحریر: عارف حسین
برف سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑ، دریا، جھرنے، چراگاہیں، خوب صورت پگڈنڈیاں اور باغات جس کشمیر کو ‘وادیٔ جنّت نظیر’ بناتے تھے، اب وہ کشمیر ایک قید خانہ ہے۔
دن کے اجالے میں کشمیری ہر گلی، ہر چوک پر بندوقیں تانے سکیورٹی اہل کاروں کے سوالوں کا جواب اور انھیں تلاشی دینے پر مجبور ہیں۔ رات کی تاریکی میں یہی اہل کار گھروں میں داخل ہو کر کسی کو بھی، کسی بھی الزام کے تحت اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اور سکیورٹی اہل کاروں کا یہ ظلم و ستم نیا نہیں، مگر 2019ء میں مودی سرکار نے کشمیریوں پر ایک اور وار کیا جس سے صورتِ حال بدترین ہوچکی ہے۔
2019ء میں مودی سرکار نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ایک آئینی شق کے خاتمے کے ذریعے چھین لی تھی اور انتظامی کنٹرول براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جس کے بعد مظالم کا سلسلہ تیز اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
آج پاکستان میں یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ 5 فروری کو ہر سال دنیا بھر مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرے اور کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
یوں تو کشمیریوں کے مسائل اور ان کے دکھوں کی فہرست طویل ہے، لیکن مقبوضہ وادی کی تقریباً نصف آبادی میں ڈپریشن جیسے خطرناک مرض کا بھی شکار ہے۔ کشمیر میں 2019ء کے بعد اس حوالے سے صورتِ حال مزید سنگین ہوگئی ہے، اور ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے۔
کرونا کے سبب اس وقت دنیا بھر میں انسانوں کی جانیں خطرے میں ہیں، اور کشمیریوں کو بھارتی حکومت نے علاج معالجے کی سہولیات سے محروم کررکھا ہے۔ اگر ذہنی امراض کی بات کی جائے تو انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی ادارے ‘ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ کی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وادی میں مقیم 41 فی صد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
ایک عالمی نشریاتی ادارے کو اس حوالے سے مقامی معالج نے بتایا تھا کہ سولہ سترہ سالہ نوجوان گھبراہٹ کا شکار اور نیند سے محروم ہیں۔ انھیں خوف اس بات کا ہے کہ سکیورٹی اہل کار کسی بھی وقت پوچھ گچھ کے لیے انھیں اٹھا کر لے سکتے ہیں۔ ان کی ذہنی صحّت ایسے واقعات سے متاثر ہوئی ہے۔
کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے کے بعد معروف برطانوی طبّی جریدے ‘لانسیٹ’ کے ادارتی مضمون میں عوام کی ذہنی صحّت پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور لکھا تھا کہ کشمیری کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور انھیں اقتصادی خوش حالی سے پہلے پرانے زخموں سے نجات چاہیے۔ واضح رہے کہ بھارت اپنے اقدامات کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے اور انھیں حقوق دینے کی کوشش کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ دنیائے طبّ اور اس سے متعلق عالمی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے کشمیریوں کی ذہنی صحّت کے حوالے سے پہلے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، لیکن چند برسوں کے دوران صورتِ حال بدتر ہوچکی ہے۔
عالمی میڈیا اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کشمیر کے باسی 1989ء ہی سے ذہنی صحّت کی ہنگامی صورتِ حال سے دوچار رہے ہیں، جس میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم اور جبر و ناانصافی پر مبنی اقدامات کے سبب اضافہ ہوا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیریوں میں اضطراب اور افسردگی بڑھی ہے اور ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صورتِ حال ہول ناک ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، یہ مسئلہ شدید ہوتا جارہا ہے۔
کشمیریوں کے برسوں پرانے زخم بھرتے نہیں کہ انھیں ایک اور گھاؤ لگ جاتا ہے جس پر اکثر کوئی مرہم رکھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کا شکار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی نہیں ہیں، معصوم بچّے بھی افسردہ اور بجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کشمیر میں زندگیاں خطرے میں اور کشمیری کڑے پہرے میں ہیں، لیکن آزادی کا نعرہ وادی میں آج بھی گونج رہا ہے اور یومِ یکجہتیِ کشمیر پر آج ایک بار پھر دنیا بھارت کا مکروہ چہرہ دیکھ رہی ہے۔