ڈاکٹر محمد امجد
سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ
پاکستان کی سیاسی فضاء میں آج جتنے بھی فریقین بلمقابل یا آمنے سامنے ہیں لگتا ہے وہ سب ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ان سب کا الگ الگ اور بغور جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے ان میں ہر فریق کو دوسرے فریق پر سبقت حاصل کرلینے کا مکمل یقین ہے، ایسے لگتا ہے جیسے ان میں ہر فریق کو!!! اپنی طاقت، اثر و رسوخ اور اپنی سوچ و پلاننگ پر مکمل اعتماد ہے سب سے اہم یہ کہ!! ان میں ہر فریق یہ سمجھ رہا ہے کہ اس وقت عالمی سیاسی افق پر جو ہوائیں چل رہی ہیں وہ اسی کو اونچا اڑانے کیلئے چل رہی ہیں۔ بس چند دنوں کی بات ہے اسکے بعد اپنے ملک پر بھی اور دنیا پر بھی ان کا راج ہوگا۔ ایک طبقے کے دماغوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ غزہ پر جو تین اطراف سے امریکہ نے حملہ کیے، یہ ہو نہیں سکتا کہ ایسا مسلم ممالک کی رضامندی کے بغیر ممکن ہوا ہو، ہوا غالباََ اسطرح ہے کہ!!! اپنی دو نمبری برقرار رکھتے ہوئے مسلم ممالک نے امریکہ کو کہا ہوگا کہ ہم رسماََ غُراتے رہیں گے اس دوران آپ غزہ پر قبضہ کر لیں، اسکے بعد سب سے پہلے کام ہی یہ کریں کہ سب مسلم کو ایک لائین میں کھڑا کر کے اسرائیل کو تسلیم کرا لیں۔ یہ کام ہو گیا تو از سر نو امریکہ دنیا کی سپر پاور ہوگا۔ اسکے ساتھی بھی مضبوط ہونگے اور جو مسلم ممالک امریکہ کو چھوڑ کر چین اور روس کی طرف بھاگنے کے چکر میں ہیں۔ وہ تو بہ تائب ہو کر صدقِ دل سے دوبارہ امریکہ کے غلام بننے کو تیار ہو جائینگے، کچھ کو یہ سوچ ناقابل تسخیر بنائے ہوئے ہیں اور!! کچھ اس بات کو پتھر پر لکیر سمجھے بیٹھے ہیں کہ فلسطین کی جنگ امریکہ اور اسکے اتحادیوں و ساتھیوں کیلئے وہ دلدل بنے گی جو افغانستان روس کیلئے بنی تھی اسکے بعد!! روس چین، ایران، ترکی اور افغانستان وغیرہ پر مشتمل نیا بلاک دنیا کی سپر پاور ہوگا۔ جس نے ان تمام لوگوں سے پورا پورا حساب لینا ہے جو امریکی اشاروں پر چلنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں یوں!! کچھ لوگ اپنا سب کچھ امریکہ اور کچھ لوگ اپنا سب کچھ روس وغیرہ کو سمجھ کر خود کو، اپنے قوم و ملک کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ملک کی سیاست کا یہ حال ہے، یہی حال ہم سب کا ہے!! ہمیں صبح کو روس کا پلڑا بھاری لگتا ہے تو ہم امریکہ میں کیڑے نکالنے شروع کر دیتے ہیں، ہمارا سوشل میڈیا ہاتھ دھو کرPDMکے پیچھے پڑ جاتا ہے اور شام کو ہمیں امریکہ کا پلڑا بھاری لگنے لگتا ہے تو ہم سب اُدھر ہو جاتے ہیں، یوں ہم نہ خود کسی نتیجے پر پہنچ پاتے ہیں نہ ہی قوم کو پہنچنے دیتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جیسے ہم وہ قوم ہیں جس میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں، ہم سب برابر، ہم عمر ہیں۔ ہم پر کسی کا احترام واجب نہیں۔ ہم سب ہی ایکدوسرے سے بڑھکر سیانے ہیں۔ ہمیں کسی سیانے کے مشورے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ وہ روِ ش ہے جس نے ہم 24کروڑ لوگوں کو ایک متحد با شعور قوم بنانے کے بجائے ایک بے ہنگم ہجوم بنا دیا ہے جسکی رو سے تباہی ہم سے زیادہ دور نہیں رہی۔ اس تباہی سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے حال و چال کو بدلنا ہوگا اور یہ رویہ اپنانا ہوگا کہ!! اگر زرداری صاحب اپنی کسی حکمت عملی سے اس ملک و عوام کیلئے دیگر ممالک سے کچھ حاصل کر کے پاکستان لاتے ہیں، جس سے پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے تو باقی سب کو انکی مخالفت کرنے کے بجائے انکے نقش قدم پر چلنے ہوئے اپنے طور یا سب کے ساتھ ملکر پاکستان کے لیے جہاں سے جوبھی مدد حاصل ہو سکتی ہو، ضرور حاصل کرنا چاہیے اسطرح!! میاں نواز شریف اپنے ذاتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کیلئے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کسی کو انکی مخالفت نہیں کرنا چاہیے، اسی طرح ملک و عوام کیلئے جو کچھ کرے اس کی سب کو ملکر حوصلہ افزائی کرنا چاہیے لیکن!! ایسا تب ہو سکتا ہے جب سیاست میں چھوٹے بڑے کی تمیز موجود ہو، احترام موجود ہو۔ سب سے اہم یہ کہ ہر قسم کی بے لگام اچھل کود کو لگام ڈالے اور!! جمہوریت و الیکشن جیسی باتوں پر از سر نو غور کیا جائے اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں ہمارے قومی مزاج کیخلاف ہیں۔ ہماری سوچ ہی جمہوری نہیں ہے۔ یہاں کی جمہوریت وہ مورچہ ہے جس میں ہر برائی کے علاوہ بادشاہت پروان چڑھتی ہے۔ اس جمہوریت کے MPAاور MNAکو سمگلرز خرید کر سینیٹرز بناتے ہیں تو پھر یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟ پورے پاکستان کو پتہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ممبران کی خرید و فروخت ہوتی ہے لیکن اسکا کوئی سدباب نہیں ہوتا، اس لیے کہ کوئی کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جب تک اسکو حل نہیں کیا جاتا تب تک پاکستان کی سلامتی شدید قسم کے خطرات سے دو چار رہے گی اور آنکھوں والوں کو نظر آرہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے چاروں طرف شدید قسم کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور یہ وہ خطرات ہیں جنہیں پوری قوم متحد ہو کر روک سکتی ہے اور جہاں تک تعلق ہے قوم کے متحد ہونے کا، اس قوم کو الیکشن، جمہوریت یا فرقے متحد نہیں کر سکتے، اسے صرف وہ قوتیں متحد کر سکتی ہیں جو اپنی حد کے اندر طاقتور بھی ہوں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ آج وطن عزیز کے دو اداروں کو یعنی افواج پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کو سامنے آکر24کروڑ کے اس ہجوم کو ایک قوم بنانے میں اپنا کردار ادا کر کے تاریخ میں اپنا ایک نام و مقام پیدا کرنا ہوگا، بصورت دیگر امریکہ و روس کے چکر میں پھنسے ہم پاکستانی نا جانے کب اپنی باقی ماندہ شناخت بھی کھو دیں گے۔
0 2 4 minutes read