Warning: foreach() argument must be of type array|object, string given in /home/u431281920/domains/dailyghaznavi.com/public_html/wp-content/plugins/insert-headers-and-footers/includes/class-wpcode-snippet-cache.php on line 43
ووٹ کی طاقت - Dailyghaznavi
موسم

ووٹ کی طاقت

کالم : وکیلِ حق ۔
تحریر : رفیق علوی
الحمدللہ! ضمنی الیکشن کا پر خطر اور پرجوش مرحلہ احسن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ تمام سٹیک ہولڈرز قابل تحسین ہیں جنہوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کیااور اس معرکہ کو خوشگوار کامیابی کی مثال بنا دیا۔ اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول فوج، الیکشن کمیشن، حکومت، سیاسی جماعتیں، سیاسی کارکنان اور سیاسی قائدین اپنا اپنا مطلوبہ مثبت کردار ادا کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
یہ الیکشن جہاں اپنے انعقاد کی ایک کامیاب مثال بنا وہاں کئی مثبت تبدیلیاں بھی وقوع پزیر کر گیا۔ سب سے پہلی خوش آئند تبدیلی یہ آئی کہ متحارب امیدواروں نے فوری طور پر اپنے پولنگ ایجنٹس کے ذریعے ملنے والے نتائج کو تسلیم کیا اور ٹی وی پر رزلٹ کا اعلان ہونے سے پہلے ہی جیتنے والے امیدوار کو گلے لگا کر مبارکباد دی ۔ اس کام میں سلمان نعیم صاحب نے جو پہل کی وہ قابلِ داد ہے۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے جس کھُلے دل کے ساتھ بروقت اپنا غیرمعمولی رد عمل دیا اور اپنے خلاف آنے والے نتائج کو بغیر کسی لیت و لعل کے قبول کیا یہ بھی ایک نئی روایت ہے اور ان کے اس عمل کو ہر لیول پر سراہا جانا چاہیے۔ خاص طور پر ملک احمد خان نے سیدھے اور صاف الفاظ میں شکست کو تسلیم کیا اور اپنی حقیقت پسند اور متوازن شخصیت کو چار چاند لگا لیے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب البتہ اس دفعہ کچھ حیلے بہانے ڈھونڈتے ہوئے نظر آئے لیکن بظاہر انہوں نے بھی نتائج کو ماننے کا اقرار کر لیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ساری سرکاری مشینری کے کھُلے استعمال، پری پول رگنگ، الیکشن انجینئرنگ کے سارے ٹیکنیکل حربے آزمانے کے بعد اعترافِ شکست کے سوا چارہ ہی کیا بچا تھا۔ اصل حلقوں سے ووٹرز کا ووٹ دوسرے حلقوں میں تبدیل کر دینے کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرتے ہوئے لوگ بھی نظر آئے لیکن اس کے باوجود اپنی زبان سے ہار کی حقیقت کو تسلیم کرنا ایک اچھی روایت ہے۔
ایک سب سے بڑی تبدیلی نے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی امیدِ دل دی ہے وہ تھی اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال۔ قوم کے اندر مایوسی کی حالت پختہ ہو گئی تھی کہ ہمارے ووٹ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ووٹ سے کچھ نہیں ہوتا، بوٹ ہی سب کچھ کرتا ہے۔ اس وقت سخت تکلیف ہوتی تھی جب لوگوں سے ووٹ کے استعمال پر بے یقینی کا اظہار سننے کو ملتا تھا کہ ہمارے ووٹ سے کیا ہونا ہے، حکومت تو اسی کی بنے گی جس کو جرنیل چاہیں گے۔ جیتے گا وہی جس کے ساتھ فوج ہو گی۔ اپنے ووٹ کی ناقدری نے بجاطور پر لوگوں کو اس انتخابی نظام سے مایوسی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ کل کے الیکشن نے مایوسی کی اس شبِ تاریک کا خاتمہ کر دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک بہت بڑا درس چھوڑ گیا ہے کہ عوام اگر اپنے اوپر بھروسہ کر کے قابض اور باطل عناصر کے سامنے ڈٹ جائیں خواہ وہ عناصر طاقت اور تعداد میں کتنے ہی زیادہ ہوں، تو آخری فیصلہ آپ کا ووٹ ہی کرے گا۔
ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ جس بھی پارٹی کے بیانیے کو صحیح مانیں،ڈرائنگ روم سے نکل کر پارٹی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔ جب آپ میدان میں ہوں گے تو فریقِ مخالف کو اندازہ ہو گا کہ” زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے”۔ اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا بھی جہاد ہے۔ جہاد امن کی ضمانت ہے اور جہاد آپ کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے بشرطیکہ آپ یقین کے ساتھ خون کے آخری قطرے تک نہ صرف لڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں بلکہ فریقِ مخالف پر بھی اپنا عزمِ صمیم واضح کر دیا ہو۔
اب لوگوں کو اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ الیکشن اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر بھی جیتا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس الیکشن کی یہی اہمیت ہے اور اس کی یہی نایاب خصوصیت اسے تاریخ میں ممتاز الیکشن کے طور پر یاد رکھے گی۔ اپنے اوپر یقین کی قوت ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیابیوں اور کامرانیوں کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔
اب جبکہ سیاسی منظرنامہ واضح ہو گیا ہے اور اسی سال الیکشن کا انعقاد معروضی تقاضوں کے مطابق ناگزیر ہو گیا ہے تو سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بے بہا قربانیوں کے بعد جس پودے کو پروان چڑھایا اس کی آبیاری کا ایک مضبوط نظام بھی بنایا جائے۔ تمام سیاسی قیادت ماضی کی رنجشوں کو بھلا کر مل بیٹھ کر آئندہ جنرل الیکشن کا فیصلہ کرے۔ الیکشن کے ضابطہ اخلاق کو قابلِ عمل بنا کر ایک دوسرے کو اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروائیں۔ متفقہ الیکشن اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر کام کیا جائے اور اسمبلی کی مدت پانچ سال کی بجائے چار سال کی جائے تو مسائل کافی کم ہو جائیں گے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کے جو اربوں روپے الیکشن انعقاد کے نام پر ضائع ہوتے ہیں وہ بچ جائیں گے۔ماضی کی ساری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ ترقیاتی کام چوتھے سال ہی شروع کرتی ہیں۔ جب مدت ہی چار سال ہو گی تو ترقیاتی کام کی پلاننگ دوسرے سال اور عملدرآمد تیسرے سال کرنا پڑے گا۔ چوتھے سال تو عوام کے پاس اگلے الیکشن کے لیے حاضریاں شروع ہو جائیں گی۔
ہمیشہ سے تمام سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ پر بے جا مداخلت کا اعتراض رہا ہے۔ اس الیکشن میں اگر وہ اسٹیبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹی ہے تو آپ کو دو قدم آگے بڑھ کر ایسا نظام بنانا پڑے گا جس سے اصل جمہوری اقتدار کی راہ ہموار ہو اور ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنے میں ہی عافیت سمجھے۔ حالات کو اس سطح پر لانے کے لئے پی ٹی آئی اور عمران خان نے جس بے باکی، جرات مندی اور ثابت قدمی سے اپنے بیانیے پر استقامت سے کام کیا اس نے سب سیاسی جماعتوں کے لئے ایک جمہوری پاکستان پر کام کرنے کی راہ کو ہموار کر دیا ہے۔ اب یہ ساری سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ ذاتی اور لمحاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے اس موقع کو غنیمت جانیں۔ بالغ نظری سے نظامِ جمہور کو مضبوط کریں۔ اسی میں پاکستان کی بقا اور مضبوطی کی ضمانت ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button