اہم خبر

مشتری ہوشیار باش!

تحریر: عظمٰی گل دختر جنرل حمید گل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے 15 جنوری 2021 تک اپنے فوجیوں کے مکمل انخلاء کا اعلانکر دیا ہے۔ بہت خوش آئند ہے ! باوجود کہ ہماری اپنی حکومت ان کے اچانک انخلاء کے خلاف ہے اور امریکہ ہی کی طرح چاہتی ہے کہ کسی بھی طریقہ سے جب تک ایک مخلوط اور وسیع بنیاد پر  ایک ایسی حکومت جو امریکی بیساکھیوں پر کھڑی نہ کی جائے فوجی واپس نہ جائیں۔ ایسی کھٹ پتلی حکومت امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کے جانے کے باوجود ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ان کے مذموم مقاصد کو پورا کرے۔ ادھر امریکہ کی "پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں” ہو گا۔ ایک طرف فوجیوں کی واپسی سے امریکی شہریوں سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا اور  دوسری جانب طالبان پر حملے بھی جاری رہیں گے۔  ان کے فوجی تو پہلے بھی کسی قسم کے خطرناک، جان لیوا اور بین الاقوامی جنگی قوانین سے متصادم مہم جوئیوں میں کھل کر حصہ نہیں لیتے تھے۔ دراصل امریکی حکومت نے اس مسئلے کا عراق میں ابو غریب جیل میں کی گئی زیادتیوں کے منظر عام پر آنے کے بعد بڑا شاطرانہ حل نکال لیا ہے۔ ریٹائیرڈ امریکی فوجیوں کی کمپنیوں کو ایسے کاموں کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہیں ڈیفنس کنٹریکٹر یعنی دفاعی ٹھیکیدار کہا جاتا ہے، وہ ہر قسم کی غلط کاریوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان پر جنگی جرائم کے قوانین کے تحت پکڑ  نہیں ہوتی جیسے با وردی فوجیوں کی۔ افغانستان میں ایسی بہت سی دفاعی ٹھیکیدار کمپنیاں فعال ہیں، جیسے بلیک واٹر جسکا نیا نام اکیڈمی ہے۔ G4S  جس میں لگ بھگ پاکستانی فوج کے برابر ہی ملازمین بھرتی ہیں اور جو ایک سو پچیس ممالک میں فعال ہے۔ FDG کارپور یشن ، DYN کارپوریشن، AEGIS ڈیفنس سروس، MPRI اور اسی طرح کی کئی اور دفاعی ٹھیکیدار کمپنیاں بھی وہاں موجود ہیں۔ بےشک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی افغانستان سے رخصت ہو جائیں گے لیکن یہ دفاعی ٹھیکیدار کمپنیاں پہلے ہی کی طرح اپنی خفیہ کاروائیاں جاری رکھیں گی۔ ادھر ہماری حکومت حالات اور معاملات کی سنجیدگی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار  پھر غلطی کرنے جا رہی ہے۔1979  سے سویٹ یونین کی افغانستان میں ناپسندیدہ موجودگی کے خلاف جاری افغان مجاہدین کے جہاد اور اس میں حیران کن کامیابی کے بعد 18 اپریل 1988 کو امریکہ کی خواہش اور ایما پر "جنیوا معاہدہ "کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں بہت سی خامیاں تھیں مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں امریکہ، سوویت یونین اور پاکستان نے افغان مجاہدین سے بالا بالا افغانستان کے بارے میں معاملات طے کیے جس کے باعث سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاء کے باوجود  جنگ بندی نہ ہو سکی۔ سوویت یونین کی شہ پر نجیب ﷲ 1992 تک حکومت کرتا رہا اور بالآخر مجاہدین نے جنگ کے ذریعے ہی اس کی حکومت گرائی۔

‏ در حقیقت جب بھی کسی بڑی طاقت  جس میں مسلمان ممالک شامل نہیں کو کہیں سے سفارتی یا جنگی سطح پر شکست کا سامنا ہو تو  اقوام متحدہ اس وقت ایسے ملک کو شکست فاش سے بچانے کے لیے آ وارد ہوتی ہے۔ جبکہ اگر مسلمان ممالک یا مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو تو اس ادارے کو معاملے کی سنگینی نظر ہی نہیں آتی۔ ہلکی پھلکی معمولی احتجاجی قراردادوں پر بات منتج ہو جاتی  ہے۔ افغانستان کے معاملے میں جنہوں نے جنگ لڑی، قربانیاں دیں، شہادتیں دے کر طویل عرصے جد و جہد  کی، انکو جائز حق دلانے کی بجائے بد نیتی سے ایک ایسی کھچڑی بنائی  گئی کہ ما سوائے امریکہ کے کسی کو اس معاہدے سے خاطر خواہ نتائج نہ مل سکے۔ البتہ سوویت یونین کی عزت ضرور بچا لی گئی وگرنہ اسے بری طرح سے اس شکست فاش کی ہزیمت اٹھانا پڑتی اور ساتھ ہی  افغانوں کے  سر یہ سہرا بندھتا کہ انہوں نے کمیونزم کے نظریات کو افغانستان کے سنگلاخ  پہاڑوں میں پٹخ پٹخ کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ کسی کو منظور نہ تھا۔ پاکستان سے اس معاہدے میں امریکہ کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرنے کی بجائے  پابندیاں لگا دی گئیں۔ 15 لاکھ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے مطلوبہ رقم بھی فراہم نہیں کی گئی۔ پاکستان حکومت نے امریکہ، اس وقت کی افغان  حکومت اور اقوام متحدہ پر اعتماد کرکے عجلت میں ایک ایسا معاہدہ کیا جو کہ آگے چل کر پاکستان ہی کے گلے پڑ گیا۔ افغان مجاہدین  پہلے دن سے نہ اس معاہدے میں شامل تھے نہ انہوں نے اس معاہدے کو کبھی تسلیم کیا۔ ہمارے لئے تو” نہ تو خدا ہی ملا نہ وصال صنم” کے مترادف ہو گیا۔ افغان بھائیوں جن کو ہم نے پناہ دی، مالی، جانی اور ہر قسم کا تعاون کیا، ان کی نئی نسل جو  پاکستانی بن کر ہمارے پاس بڑی ہوئی، جس کے ہیرو پاکستانی ہیروز تھے، جنکی تعلیم، ثقافت، دو ستیاں اور رشتہ داریاں پاکستانیوں سے ہوئیں وہ ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری طاقت بننے کی بجائے ہم سے خفا ہو گئے۔ یوں ہمارے افغان لوگوں کے ساتھ بھائی چارے کے امکانات بھی ضائع ہو گئے۔ ہم نے  اغیار کے ہاتھوں جیتی ہوئی بازی مذاکرات کی میز پر ہار دی اور آج بھی بجائے اس غلطی کا اعتراف کر کے آئندہ ایسا کرنے سے بچنے کی تدبیر کرتے، ہم اسی راہ پر چل کر  بالکل اسی انجام کی جانب گامزن ہیں۔

ذلمے خلیل زاد کی آج کل آنیاں جانیاں دیکھنے کے لائق ہیں۔ آج پھر وہ افغانستان کے معاملات سلجھانے کے لیے میدان میں  کود پڑے ہیں۔ یہ وہی حضرت ہیں جو جنیوا معاہدہ طے کرنے میں پیش پیش تھے۔ آج بھی وہ افغانستان کی گرتی ہوئی حکومت کو بچانے اور اپنے لئے نئی افغان حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے کے خواہاں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ پھر پاکستانی حکومت کو گھیرکر طالبان کے مرضی کے منافی فیصلہ کروا لیں۔ یاد رہے کہ یہ زلمے خلیل زاد ہی تھے جو 1988 میں امریکی ٹیم کے نمائندہ کے طور پر بہت متحرک تھے۔ پاکستان حکومت کو اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے چت کرنے کا اعزاز بھی انہی کو جاتا ہے۔ یہ بون جرمنی میں بھی امریکی ٹیم کے سربراہ تھے جس نے 2001 میں طالبان حکومت کے جانے کے بعد اس کی جگہ نئی متبادل حکومت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ جنیوا معاہدے کی طرح نئی حکومت کے قیام کا انکا یہ فیصلہ بھی بری طرح سے ناکام ہوا۔ کمال یہ ہے کہ محترم پر اس کے باوجود بھی آنچ تک نہ آئی اور وہ  اسی شان و شوکت سے سفارتی محاذ پر مصروف عمل ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی جانب سے بطور سفیر تعینات رہے اور پھر 2004 سے لے کر 2005 تک افغانستان میں اور 2005 سے 2007  تک عراق میں بھی بطور سفیر تعینات رہے۔ ان کی زوجہ شیرل برنارڈ امریکہ میں مسلمان مخالف تھنک ٹینک "رینڈ کارپوریشن” میں اپنی تجاویز اور مقالے بھی لکھتی ہیں۔ 2003 میں ان کی لکھی ہوئی کتاب "سول ڈیموکریٹک اسلام ” میں انہوں نے مسلمانوں کی سات اقسام بتائی ہیں اور ان کو کیسے قابو کیا جانا چاہیے، کے لیے اس میں تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ اس وقت امریکہ کا پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوالے سے جو سخت اور جابرانہ لائحہ عمل ہے اس کی بنیادی پالیسی ان خاتون کی تجاویز پر عمل کرکے  ہی بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ شیرل افغان خواتین کی خود ساختہ نمائندہ کے طور پر بھی اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں جبکہ کسی نے انہیں افغان خواتین کے نمائندے کے طور پر نامزد  نہیں کیا ہے۔ جہاں تک ذ لمے خلیل زاد کا تعلق ہے انہوں نے بھی مسلمان مخالف تھنک ٹینک "رینڈ کارپوریشن” کے لئے 28 مقالات لکھے ہیں اور ان کی بھی کارپوریشن میں بہت اہمیت ہے۔ افغان عوام ہمیشہ سے آزاد قوم ہے وہ کبھی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنی کئی نسلوں کی قربانیاں دی ہیں مگر کسی کے غلام نہیں بنے۔ ان کے لئے اپنی آزادی ہی سب سے اہم ہے۔ پچھلی ایک صدی میں تین سپر پاورز کو افغانستان کے میدانوں اور  چٹانوں میں افغانوں نے شکست کی خاک چٹا دی ہے۔” تین سوپر پاورز کا قبرستان ہے افغانستان” ۔ افغانوں کے جائز مفادات اور حقوق پر سودے بازی یا چالبازی ہمارے لیے کبھی بھی سود مند ثابت نہ ہو گی۔

؎       افغان باقی ، کُہسار باقی

الحکمُ   للہ!        المُلکُ للہ

اتوار برائے پیر مورخہ 28-12-2020  شاملِ اشاعت کے لیے

 

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button