اہم خبر

ٹرمپ اور لوتھن کا خواب۔۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،

قارئین،چند ماہ قبل اسی کالم میں لکھا گیا تھا کہ امریکہ کی تاریخ کا جمہوری تسلسل ٹرمپ کی ہٹ دھرمی سے رکھ سکتا ہے ۔ مارشل لاء خواہ چندہ گھنٹوں کا ہی کیوں نہ، مارشل لاء ہی ہوتا ہے۔ امریکہ علانیہ مارشل لاء سے تو بچ گیا۔ مگر 200 سو سالہ تاریخ میں پہلی بار انتقال اقتدار غیر روایتی اور ماورائے قانون نیم مارشل لاء کے ماحول میں ہو رہا ہے ۔ امریکی عوام نئے صدر کی حلف برداری سے دو دن قبل مارٹن لوتھن کنگ جونئیر کی یاد میں انسانی حقوق کا دن منا رہی ہے اور دوسری جانب سفید فام امریکیوں کے خوف سے درالخلافہ میں ہائی الرٹ کے اعلان کے ساتھ فوج طلب کر لی گئی ہے ۔ گویا ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کر کے اور پارلیمنٹ پر حملہ کرا کر سول انتظامیہ کو ناکام بنا دیا۔ ایمرجنسی صورت حال میں چار دن کے لیے واشنگٹن فوج کے حوالے ہے جس کو نیم مارشل لاء ہی کہا جائے گا ۔ یہ صورت حال امریکی معاشرے کو 1619 میں لے جانے کی حسرت کے ساتھ امریکہ کی تاریخ کے منفرد صدر رونالڈ ٹرمپ کی ان نسلی امتیاز کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جو چار سال قبل سفید فام برتری کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آیا اور اپنے خواب کی تعبیر کی حسرت لے کر وائٹ ہاؤس سے ذلت و رسوائی کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے ۔ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ وائٹ ہاؤس پر اس کا قبضہ باقی رہے لیکن پینٹا گان نے امریکہ کو بھارت بننے سے بچا لیا ٹرمپ اور مودی کی سوچ اور مزاج ملتے ہیں اس لیے چار سال دوستی خوب راز و نیاز کی باتوں کے ساتھ دوستی نبتی رہی ۔ چند دن قبل امریکی افواج کے سربراہان کے مشترکہ دستخط سے جاری ہونے والے ایک خط میں واضح کیا گیا کہ امریکی قوم نے نئے صدر کا انتخاب کر لیا ہے لہذا 20 جنوری 2021 کو امریکہ میں انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جائےگا۔ یہ دراصل ٹرمپ اور اس کے حامیوں کو فوج کی طرف سے وارننگ تھی جس نے رخصت ہونے والے صدر کو گارڈ آف آنر پیش کرنے سے انکار کر دیا۔ 18 جنوری کو امریکی قوم نے جس شخصیت کی یاد میں دن منایا وہ انسانی حقوق کا علمبردار مارٹن لوتھن تھا۔ جس کی سوج سے ٹرمپ کی سوچ ضد ہے۔ اس نے نسلی امتیاز کے خاتمے کا خواب دیکھا تھا ۔ 57 سال قبل اسی دن ابراہیم لنکن کے مجسمے کے سائیہ میں اپنا یہ خواب ڈھائی لاکھ امریکن کے مجمعے میں سنایا تھا ۔ جس نے صدر کینیڈی سمیت امریکن کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا۔ آج امریکی قوم اس عظیم انسان کی یاد میں دن منا کر صدر ٹرمپ کی سوچ کو مسترد کر رہی ہے جو سفید فام برتری کا اپنا ادھورہ خواب لے کر وائٹ ہاؤس سے رخت سفر باندھ رہا ہے ۔” خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں” ہمارے معاشرے میں یہ اس وقت بولا جاتا جب محسوس ہو رہا ہو کہ کوئی شخص اپنی حیثیت یا اوقات سے بڑھ کر خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں انتخابات سے پتہ چلا کہ امریکی معاشرہ آج بھی نسلی امتیاز سے بھر پور ہے، لیکن ٹرمپ کی بھی وہی مجبوری ہے جو پاکستان میں پی ڈی ایم کی ہے۔ اُس وقت امریکہ میں اعلیٰ نسل کے دعویدار گوروں کی خواہش اور خواب ہے کہ امریکہ میں 1619 کا زمانہ واپس آ جائے جب وائٹ لوائن نامی جہاز کے عملے کی میکسیکو جاتے ہوئے ہسپانوی بحری جہاز کے عملے سے جھڑپ ہوئی تھی اور 20 افریقی غلاموں کو پکڑ لیا تھا ۔ امریکی جہاز کو مرمت کے لیے ورجینیا کے ساحل پر لنگرانداز کیا گیا۔ انہی 20 کالے افریقی غلاموں کو معاوضے کے طور پر مکینک کے حوالے کر کے جہاز کی مرمت کرائی گئی ۔ انسانوں کی یہ پہلی تجارت امریکی سفید فاموں کو بہت منافہ بخش لگی۔ امریکہ میں غلامی اور نسلی امتیاز کا یہ سلسلہ اسی دن سے شروع ہوا ۔ پھر افریقہ کے جنگلوں میں جا جا کر سیاہ فاموں کو پکڑنے اور امریکہ لانے کا منافہ بخش کاروبا کا آغاز ہوا، جیسے وائلڈ لائف کا کاروبار ہو، جو کئی سو سال تک جاری رہا۔ اسی دوران ہیومن زو بھی بنے جہاں پنجروں میں بند سیاہ فام افریقیوں کو سفید فام امریکی اور ان کے بچے دیکھنے آتے تھے ۔ سیاہ چمڑی کے انسانوں کو ان چڑیا گھروں میں زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا۔ اتنی دیر ہی کھولے جاتے جب تک کام لینا ہو ۔ کچھ عرصہ بعد ان کے لیے گھروں میں غلاموں کے کوارٹر کا تصور سامنے آیا پھر الگ بستیاں قائم ہوئیں جو آج بھی موجود ہیں۔1862 میں امریکہ میں غلامی کو غیر قانونی قرار تو دیا گیا لیکن امتیازی قانون موجود رہے۔سیاہ فام کی بستیاں ، سکول الگ،اور گاڑی میں سفر کے دوران سفید فام سوار ہو تو اس کے لیے جگہ چھوڑ کر پیچھے کے حصے میں کھڑا ہو کر سفر کرنا جو اس کے لیے مخصوص ہے نسلی امتیاز کی بدترین مثال تھی ۔ مارٹن لوتھن کنگ جونئیر جنوری 1929 کو ایک سیاہ فام پادری کے گھر پیدا ہوا۔ اس نے سیاہ فاموں کے حقوق کی جنگ لڑی اور صدیوں کا سفر برسوں میں طہ کیا ۔57 برس قبل 18 جنوری کو لوتھن کنگ نے سیاہ فام کو واشنگٹن پہنچنے کا کہا تو ابراہیم لنکن کے مجسمے کے سایہ میں ڈھائی لاکھ افراد جمع ہو گئے۔ اس میں کچھ انسانی برابری پر یقین رکھنے والے گورے بھی تھے مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔ جب مارٹن لوتھن کنگ نے خطاب شروع کیا تو پہلے وہ بہت نرم لہجے میں بولا ” ’میرا ایک خواب ہے” اور پھر تیز آواز میں دُہرایا۔ ” میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فاموں غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں، میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں۔ مجھے خوشی ہو رہی ہے اپنی آزادی کے لیے جمع ہونے والے اس تاریخی مجمع میں شریک ہو کر، آج ہم اس عظیم امریکی لیڈر کی یادگار کے سائے میں کھڑے ہیں جس نے سب کے لیے آزاد ہونے کا اعلان کیا تھا مگر سو سال گزر جانے کے باوجود سیاہ فام آج بھی غلام ہیں۔” اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی برائے راست یہ خطاب سن رہا تھا ۔ اسے ایسا لگا کسی نے اس کے ضمیر کو جھنجوڑ دیا ہو۔ دوسرے دن مارٹن کو وائٹ ہاؤس بلایا گیا اور صدر نے چائے پر سیاہ فام لیڈر سے ملاقات کی ۔ مارٹن لوتھن پہلا سیاہ فام ہے جو عزت احترام کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا۔ شائد اسی دن بارک حسین اوباما کے داخلے کا راستہ ہموار ہوا ہو ۔ اسی تنازر میں 1964 کا شہری حقوق کا وفاقی قانون اور 1965 میں ووٹ کے مساوی حق کا قانون منظور ہوا۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کا قانون تو ختم ہوا لیکن اس وقت بھی کچھ ٹرمپ موجود تھے جو حسد کی آگ میں جل رہے تھے ایسے ہی ایک ٹرمپ نے 4 اپریل 1968 کو مارٹن لوتھن کنگ جونئیر کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ آج کا ٹرمپ بھی امریکی سفید فام کے علاوہ سب کو قتل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے، ” خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں” ایک خواب مارٹن لوتھن کنگ جونئیر نے بھی دیکھا تھا۔ ٹرمپ کے خواب کی تعبیر سفید فام دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو اور سڑکوں پر فوج کا کھڑا ہونا ہے ۔ مارٹن لوتھن کنگ کے خواب کی تعبیر جوبیڈن ہے جو آج امریکہ کے نئے صدر کا حلف اٹھا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button