(عقیل ترین)
لگتا یہی ہے کہ کپتان کی قسمت کو گہن لگ رہا ہے ۔گزشتہ پندرہ دنوں میں جو واقعات ظہورپذیر ہوئے وہ قوم اور موجودہ حکومت کے چاہنے والوں کے ہاضمے کیلئے اچھے نہیں ۔براڈ شیٹ جیسی ایک ڈوبی فرم بارے جو حقائق سامنے آگئے پھر ڈیڑھ ملین ڈالر کی خطیر رقم کی لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں رکھنے اور پھر وہ براڈشیٹ کو دے دئیے جانے سمیت بہت سارے ایسے سوالات پیدا ہوگئے ہیں جو یقینا کسی نہ کسی کی کرسی کو لیکر رہیں گے!
بدقسمتی یہ ہے کہ حقائق کو اس انداز میں مسخ کرکے بیان کیا جاتا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدا ر افراد کو بھی حق کیا ہے؟ اور سچ کیا ہے ؟کے درمیان تمیزکرتے وقت چکر محسوس ہوتے ہیں ۔شاہد یہی وجہ ہے کہ براڈ شیٹ کے ن لیگ کے اثاثوں کی چھان بین سے لیکر اس غیر ملکی فرم کے نیب کیساتھ تعلقات تک کے تمام معاملات اقتدار کی چکر بازیوں کی طرح چکر میں ہیں ۔ مسلم لیگ ن اپوزیشن اور میڈیا براڈ شیٹ کو جبرا ادا کئے گئے ڈیڑھ ملین ڈالر اور اس کیساتھ نیب کے معاہدے کے اغراض ومقاصد پر سوالات اٹھارہے ہیں اور اسکو حکومت کی ناکامی اور نیب کی ناقص حکمت عملی سے تعبرکر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وفاقی حکومت ، اسکے وزرا اسکو اپنی کی کامیابی سے جوڑ رہے ہیں ۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ کیسی کامیابی؟کیا براڈ شیٹ نے نواز شریف کے اثاثوں کی ریکوری حکومت پاکستان کو کامیابی سے کراد ی؟اب جو ایک خفیہ خط منظر عام پہ ہے جسمیں وزیراعظم کے نمائندے بیرسٹر علی اور براڈشیٹ کے مسٹر موسوی کے درمیان رابطوں کی داستاں ہے اسمیں تو شریف فیملی کے اثاثوں کی ریکوری کیلئے ہونے والے دو نئے ممکنہ معاہدوں کیلیے 25 ارب ڈالر کا شئیر مانگا گیا،یہ شئیر کس نے مانگا یہ تحقیقات کون کریگا؟ کہ یہ سچ ہے کہ نہیں،اب قوم پوچھے کہ اگر نواز شریف کے چوری کے پیسوں کی ریکوری پہ کوئی حصہ مانگے تو وہ کیا کہلائے گا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ براڈ شیٹ کیس کئی سابق وزرا اور موجودہ معاونین خصوصی سمیت نیب کے کئی چیئرمینوں کے گلے کا پھندا بننے والا ہے!
یہ تو ہوگیا ایک مسلسل جھوٹ کا انجام جو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بارے بولا گیا اور آخر کار حکومت اور نیب پر ہی آگرا ۔ اسی طرح آپ دیکھئے کہ کس طرح ملائیشیا جیسے برادر اسلامی ملک نے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی یااقتصادی تعلقات کا بھانڈا پھوڑا؟ملائیشیا میں جس طرح سے پی آئی اے کا جہاز پکڑا گیا اس میں موجود پاکستانیوں کی تذلیل کی گئی اس سے بڑھ کر کوئی اور پاکستانی پرچم یا پاسپورٹ کی توہین کرسکتا ہے ؟شاہد یہ دنیائے عالم کی فضائی تاریخ میں پہلا کام ہوا ہے جو موجودہ حکومت کے کھاتے میں پڑ گیا ہے کیا موجودہ حکومت یا وزیرہوا بازی پی آئی اے کے چیئرمین سے اس حوالے سے باز پرس کرینگے کہ ایسا کیوں ہوا؟
پاکستان اور اسکی عوام کی عزت کیساتھ کھیلواڑ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا !اب چائنہ سے خبر آئی ہے کہ وہ صرف اس لئے PIA کی پروازوں پر پابندی لگارہا ہے کہ وہاں سے آنیوالے مسافروں کے COVID ٹیسٹ جعلی ہیں ۔ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا یہ بھی سابق حکومتوں کی ناکامی ہے ؟ اگر ایک شخص قوم کی تربیت ، اداروں میں اصلاحات اور کابینہ میں ٹھوس پالیسی بنا سکنے والے وزراء اڑھائی سال میں نہیں لاسکا تو پھر بتائیے کہ وہ اگلے اڑھائی سال کیا کریگا َ؟
ان پندرہ دنوں میں پاکستان میں 7 سال بعد ایک ایسا بلیک آئوٹ ہوا جو دہشت گرد بھی نہیں کرواسکتے تھے ۔اس پر موجودہ حکومت نے کیا کیا؟سوال یہ ہے کیا واپڈا جیسے حساس ترین محکمے میں گڈ گورنس کو مانیٹرکیا گیا ؟
کیا کسی سیکرٹری واٹراینڈ پاور ، کسی وزیر یا مشیر کو اس پر SACK کیا گیا ؟
یہ حکومت پالیسیاں کیسے بناتی ہوگی ؟ کیسے ان کا نفاذ ہوتا ہوگا ؟اسکی صرف ایک جھلک ڈاکٹر عشرت جو بیورو کریسی اور اداروں کے ڈھانچوں کی اصلاحات کیلئے سامنے لائے گئے تھے ان کی پرفارمنس میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ اب یہ ہی دیکھ لیں کہ وفاقی حکومت اڑھائی سالوں میں یہ فیصلہ نہیں کرسکی ا سے وزارت اطلاعات اور پی ٹی وی کو کیسے چلانا ہے ؟
وزارت اطلاعات اپنے ماتحت اداروں کا حال دیکھے کہ وہ کیسے تباہ ہوگئے ؟ایک ادارے میں جو ہورہا ہے جب یہ باہر نکلے گا تو قوم پی ٹی وی کیلئے ارشد خان ، فواد چودھری ، نعیم بخاری ، عامر منظوراور اعظم خان کے درمیان ہونیوالی لڑائی بھول جائیگی ۔وزارت اطلاعات کے اندر یہ حال ہے کہ آئے روز یہاں پر میڈیا پالیسی تبدیل کردی جاتی ہے ۔کبھی سنٹر لائزڈپالیسی نافذ اور کبھی موخر کردی جاتی ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز ، سیکرٹری اطلاعات محترمہ شاہیرا شاہد اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر سہیل علی خان سنٹر لائنزڈ میڈیا پالیسی خا ص کر کلائنٹ سے اخبارات کی نامزدگی کا اختیار چھیننے کا ظالمانہ فیصلہ واپس لیں ۔ کلائنٹ سے اس اختیار کے خاتمے کے بعد میڈیا ویسے ہی محدود ہوجاتا ہے جس سے پی آئی ڈی کے کوانٹم پر بھی اثر پڑتا ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سیکنڈ لائن قومی اخبارات تباہ ہوجاتے ہیں۔
اس سے بڑے میڈیا گروپس مزید طاقتور اور سیکنڈ لائن اخبارات جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں یقینی طور پر مر جاتے ہیں ۔پتہ نہیں اس پر میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں ا ے پی این ایس ، سی پی این ای کوئی آواز کیوں نہیں بلند کرتی ۔ا س پر نیشنل پریس کلب کوبھی آگے آنا چاہیے کیونکہ جتنا روزگار بڑے میڈیا گروپس دے رہے ہیں اس سے ڈبل صحافیوں کا روزگار میٹرو پولیٹن بی اور ریجنل اخبارات سے وابستہ ہے ۔ اس پر وزیراعظم عمران خان کو ایکشن لینا چاہیے اور وزارت اطلاعات کو یہ احکامات دینے چاہئیں کہ وہ سینٹر لائزڈ پالیسی ختم اور کلائنٹس میڈیا کو اوپن کریں کیونکہ میڈیا کیساتھ تعلقات کی پہلی سیڑھی یہاں سے ہوکر ہی گزرتی ہے ۔اور آخر میں ایک سوال کہ کیا نیب یا وزیراعظم اس بات کا نوٹس لیں گے کہ انفارمیشن گروپ کے کون کون سے آفیسرز دودو تنخواہیں غیرقانونی طور پر وصول کررہے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے
0 0 4 minutes read