آرمی چیف عاصم منیرکی معیشت کی بحالی کیلئے کاوشیں قابل تحسین،مگر یہ اسٹیبلشمنٹ کے اکیلے کی بس کی بات نہیں
معیشت کیلئے پوری سیاسی قیادت کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا،اسی لئے شاید قومی حکومت کا چرچا ہے
اگلے 10 سال اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کامعیشت ایک نکاتی ایجنڈا ہوگا تو ملک بچنا
عمران خان نے دن رات ایک کرکے بڑی جانفشانی سے معیشت کو تباہ کیا
روایتی جگاڑ سے اب معیشت کو ٹھیک کرنا ناممکن ہے
اتنی تباہی ہوچکی کہ دوست ممالک کی مدد سے بھی اب ملک چلے گانہیں
سرمایہ کاری، توانائی ایکسپورٹ اور آبادی پر کنٹرول کے فوکس سے معاشی منزل ملے گی
ملک چلانے والوں کو فیصلے تدبر اور دور اندیشانہ کرنا ہونگے،افغانوں کے انخلاکا فیصلہ جلد بازی کا، بزرگوارم
یہ اتنے سیانے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ کو گالیاں دیکر بند کردیا، رئیل سٹیٹ سے12ارب ڈالر UAE انویسٹ ہوگئے
ریئل اسٹیٹ سے 60سے زائد انڈسٹریاں چلتیں، ایک فیصلہ نے سب انڈسٹریز کو بند کردیا،بزرگوارم
نواز شرہف رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر اپنا جامع پروگرام بتائیں گے تو سرمایہ کاری لوٹ آئے گی،بزرگورام
ممکنہ حکومت میں نواز شریف کو نئے چہرے سامنے لاکر سرپرائز دینا ہوگا،بزرگوارم
بلاول اسٹیبلشمنٹ میں مقبولیت نہ پاسکے، مریم نواز اب فوج کو قبو ل ہیں
عقیل احمد ترین
قلم کی جنگ
تباہی تیزی سے ہمارے قریب آرہی ہے اور ہم ابھی تک سائفر عمران خان بشری بی بی کے نکاح میں اٹکے پڑے ہیں، وہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجارہا تھا، آبادی کا دباؤ،توانائی کی کمی، ڈالر پر پریشر، ایکسپورٹ میں مندی اور بیڈگورننس کے 5سالوں کے بعد آخر میں اگر بچا ہے تو صرف پھر سے پاؤں پر کھڑا ہونا کا حوصلہ۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی استطاعت اور صلاحیت سے بڑھ کر ملک کے واحد دھانسوں قسم کے چیلنج معیشت کی بحالی کیلئے کام کررہے ہیں، لیکن کیا ملک کے اندر صنعتی ترقی اور زرعی ہدف پورا کئے بغیر یہ خواب مکمل ہوسکے گا؟
اسمیں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جناب عمران خان نے بڑی محنت اور دن رات ایک کرکے جہد مسلسل سے پاکستان کی معشیت کو تباہ کیا، اب اسکی بحالی ایک بدمست ہاتھی ہے جس پر قابو پانا قریب قریب ناممکن ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر قومی حکومت کی پکار اورباز گشت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ قومی حکومت یا سانجھے کی حکومت بھی بھلا بغیر تگڑی اپوزیشن مطلبوبہ رزلٹ دے سکے گی؟
ہمیں جنرل عاصم منیر، ان کی ٹیم، نواز زرداری اور فضل الرحمن کی ملکی معشیت کوبہتر بنانے کی نیت پر کوئی شک نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اب ماضی کی طرح دوست ممالک سے ادھار پکڑ کر ملک چلانے کا جگاڑ نہیں چلے گا،
گزشتہ شام ملکی و خطے کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے بزرگوارم سے ملاقات ہوئی، وہ بھی ملکی صورتحال پر سخت پریشان تھے، ان کا نکتہ نظریہ تھاکہ افغانوں کے انخلا کے فیصلے سے کوئی ہمیں بتائے کہ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا؟اگر تو ہم ان افغانوں کو ویزہ دینے کے نام پر کوئی آمدن حاصل کرتے تو بات سمجھ میں آتی تھی، ہم نے اپنی گزشتہ 51سال کی مہمان نوازی کو ضائع کیا، بلکہ افغانستان کے اندر بلا تفریق گروپنگ پاکستان کیخلاف دشمنی کو ہوا دیدی، ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ہم طالبان کی حکومت بنانے میں مدد نہ کرتے تو آج ہمارے حالات اچھے ہوتے؟
بزرگوارم کا کہنا تھاکہ میاں نواز شریف رونا دھونا چھوڑیں اور ملک وقوم کو کوئی واضع روڈ میپ دیں، مثال کے طور پر میاں صاحب کو ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کے بارے کوئی پلان دینا چاہیے۔
رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کو گالیاں دیکر کر بند تو کردیا گیا، لیکن کیا کسی نے سوچا کہ اس انڈسٹری سے 60سے زائد انڈسٹریز بھی بند ہوگئیں؟ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں کتنا سالانہ ریونیو باہر سے آرہا تھا؟ کتنا ٹیکس اکٹھاہورہا تھا؟کتنے لاکھ لوگوں کو روزگار مل رہاتھا؟اسکا کسی نے سوچا؟ اسکا تونہیں پتہ کہ سالانہ کتنے ارب ڈالر باہر سے رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ ہونے آرہیتھے لیکن یہ تو سب کو پتہ ہے ایک سال سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے 12ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان سے یواے ای چلی گئی،ہم عرب امارات کویہاں پر سرمایہ لکاری کیلئے رضامند کررہے ہیں، اور نجانے کیا کیا گارنٹیاں دے رہے ہیں لیکن ریئل اسٹیٹ انڈسٹری سے اگر 12ارب ڈالر صرف یو اے ای جاتے ہیں تو پھر دیکھ لیجیئے کہ ہم کیسی پالیسیاں بنانے والے لوگ ہیں؟
بزرگوارم نے میاں نوازشریف کو مشورہ دیاہے کہ ان کو اپنی حکومتی ٹیم کیلئے قوم کو سرپرائز دینا چاہیے،اس وقت دیکھا جائے تو میاں نوازشریف کو فنانس کے معاملات یا تو خود اپنے پاس رکھنا چاہیے یا پھر اس کلئے کوئی نیا چہرہ لانا چاہیئے، تاکہ وہ مطلوبہ رزلٹ لے سکیں، کیونکہ اس بار میاں نواز شریف ایک نئی سوچ اور چہرے کیساتھ ملک کی سمت اور عوام کی قسمت بدلنے آرہے ہیں۔
پیارے پڑھنے والو!
آصف علی زرداری نے پی پی کو پھر سے گیم میں ان کرلیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کی MOVE سے پہلے یہ کہیں طے کرلیا گیا تھا کہ آنے والے 5سے 10سال ملک کے اندر ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت سازی ہوگی، اور وہ ہوگی معیشت، لیکن بلاول بھٹو زرداری تھوڑا سا فاسٹ ٹریک پر کھیل رہے تھے، اس میں کوئی تک نہیں کہ ان کی گفتگو بیلنس اور دل کو چھو لینے والی ہوتی ہے، لیکن بقول آصف علی زرداری ابھی وہ نا پختہ ہیں، ویسے بھی ایسٹیبلشمنٹ ابھی بلاول کو قبول کرنے کو تیار نہیں، ان کے مقابلے میں مریم نواز پنجاب کی حد تک قابل قبول ہیں۔


