کالم

گمنام ہیروزکے نام، انٹرنیشنل فائر فائٹرزڈے 4 مئی

ساؤتھ ایشیا کی صف اول کی ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122عوام کو فائر سیفٹی کے بارے میں آگاہی دینے اور پنجاب کمیونٹی سیفٹی بلڈنگ ریگولیشنز 2022 پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ انٹرنیشنل فائر فائٹرز ڈے منا رہی ہے۔ یہ بلڈنگ ریگولیشنز پنجاب کمیونٹی سیفٹی ایکٹ 2021 کے تحت نوٹیفائی کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں 2007 میں فائر ایمرجنسی کوئیک رسپانس کو متعارف کرایا گیا تھا اور آج فائر ریسکیو سروس نے فائر ایمرجنسی کوئیک رسپانس اور جدید خطوط پر پیشہ ورانہ فائر فائٹنگ کے توسط سے 2 لاکھ سے زائد آتشزدگی کے واقعات میں 611 ارب روپے سے زائد مالیت کے نقصانات کو بچایا ہے۔اس پیشہ ورانہ فائر فائٹنگ کی مختصر تاریخ میں، بہت سے فائر فائٹرز دوسروں کی جانوں اور املاک کو بچاتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ خاص طور پر بلند و بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی کو فروغ دیا جائے جس کے لیے عمارتوں کے مالکان کوایمرجنسی سروس کے ساتھ تعاون کرنے اور پاکستان میں سیفٹی کلچر کو پروموٹ کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ہر سال 4 مئی ، فائر فائٹرز کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ فائر فائٹرز کو ان کی خدمات کے عوظ جو وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کیلیے سرانجام دیتے ہیں،خراج تحسین پیش کیا جا سکے اور ان سے اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔ اس دن کو سینٹ فلورین ڈے کے طور پر بھی منایا جاتا ہے، سینٹ فلورین رومن سلطنت میں فائر فائٹنگ اسکواڈ کا پہلا معروف کمانڈر تھا جو اپنے ساتھیوں سمیت آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے ایک المناک حادثہ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
یہ خاموش محافظ، مٹی کے سچے بیٹے اور گمنام ہیروز فائر ریسکیورز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فائر ریسکیورز کو ان کے منفرد اور پُر خطر کام کی وجہ سے پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آگ بجھانے کی تیکنیک انتہائی مہارت پر مبنی ہوتی ہے جو غیر متوقع اور پیچیدہ صورتحال میں درست فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس میں آگ کے شعلوں کو درست طریقہ سے بجھانے اورپھنسے ہوئے متاثرین کو آگ سے نکانے اور املاک کو بچانے کی خصوصی مہارتیں شامل ہیں۔ آگ بجھانے کے حفاظتی طریقہ کار کو سیکھنا اور اس کو باوقتِ ضرورت بروکار لانا خطرات کو کم کرنے میں مدد کرتاہے۔
تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی آتشزدگی کے بڑے واقعات کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں بھی آگ کے بڑے بڑے حادثات کیوجہ سے بہت سی قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان ہوتا رہا جسکی بنیاد پر ان ممالک نے فائر سیفٹی کے لئے اقدامات کو یقینی بنایا اور آج وہ تمام ممالک ترقی پذیر ممالک کیلئے فائر سیفٹی کے حوالے سے مثال بنے ہوئے ہیں۔آگ کے واقعات نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو بھی 1608 میں نہ چھوڑا جب بہت سی قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان ہوا۔ اسکے علاوہ 1666 میں گریٹ فائر آف لندن نے تو لندن کا نقشہ ہی بدل ڈالا جس نے براہ راست 3200 1 گھر 87 چرچ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ بہت سے اور بالواسطہ نقصانات بھی پہنچائے۔ اسطرح بوسٹن شہر میں آگ کے بڑے واقعے نے انتظامیہ کی توجہ فائر سیفٹی کے حوالے سے قانون سازی، عمارتوں کی تعمیر، متعلقہ اداروں کے قیام کی طرف مبذول کروائی۔ اسکے علاوہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر نیو یارک میں دہشت گردی کے نتیجے میں لگنے والی فائر میں 300 فائر فائٹرز (جو فرسٹ رسپانڈر تھے) کی اموات نے فائر فائٹرز کی بہادری اور جُرات کی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں واقعات کے بعد نہ صرف حکومت کی طرف سے سیفٹی کے اقدامات لئے گئے بلکہ مقامی سطح پر فائر سیفٹی کو یقینی بنایا گیا۔
پاکستان میں چوہدری پرویز الٰہی کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے دورِ حکومت میں ریسکیو 1122 سروس کا آغاز 2004 میں ڈاکٹر رضوان نصیر ڈی جی ریسکیو پنجاب کی سربراہی میں ایمبولینس سروس کے طور پر کیا گیا۔ سروس نے مختصر وقت میں عزت اور عوامی اعتماد حاصل کیا۔ جس کے نتیجہ میں فائر سروس کے قیام کا چیلنج بھی 2007میں ریسکیو سروس کو ملا جس میں اس وقت کے سکاٹش پارلیمنٹرین حنظلہ ملک اور گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ریسکیو افسران کی بحثیت ماسٹر ٹریننرز تربیت سکاٹ لینڈ سٹریتھ کلائیڈ فائر اینڈ ریسکیو سروس سے ممکن بنایا جس کی بدولت ایمرجنسی سروسز اکیڈمی میں شعبہ فائر ریسکیوکی تربیت شروع کی گئی آج پاکستان بھر کے ریسکیورز نہ صرف یہاں سے تربیت حاصل کر رہے ہیں بلکہ اس تربیت کی بدولت اور پچھلے سال کی ایمرجنسی سروس کے اعداد و شمار کے مطابق، فائر ریسکیو سروس پنجاب میں روزانہ اوسطاً 43 آتشزدگی کے واقعات جنکی سب سے بڑی وجہ شارٹ سرکٹ اور لاپرواہی ہے،کو ریسپانڈ کر رہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آگ سے بچاو کے لئے بروقت ہنگامی اقدامات کیے جانے چاہیئں جیسے کہ ہنگامی انخلاء کا رستہ (فائر ایگزٹ) جو فائر دروازوں سے منقسم کیے گئے رستہ پر مشتمل ہو، فائر الارم سسٹم، فائر فائٹنگ کے لیے بیرونی فائر ہائیڈرنٹس کے علاوہ کثیر المنزلہ عمارتوں میں خود کار پانی کے چھڑکاؤ کا نظام نصب کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اور گھریلو لوازمات جیسے کہ گیس کے ہیٹر، کچن کے چولہے اور موم بتیاں استعمال کرتے ہوئے تھوڑی سی احتیاط برتتے ہوئے لاپرواہی کی وجہ سے لگنے والی آگ کی ہنگامی صورتحال کو روکا جا سکتا ہے۔ ہمیشہ معیاری بجلی اور گیس کے آلات استعمال کرنے چاہیئں، سونے سے پہلے اور عمارت سے باہر جانے سے پہلے تمام برقی اور گیسی آلات بند کر دینا چاہیئں۔ مزید برآں، اس شعبے میں پیشہ ور افراد کی تعداد بڑھانے اور ملک میں حفاظت کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے فائر فائٹنگ اور فائر سیفٹی سے متعلق ایک ڈگری پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس خاص دن پر، میں گھکڑ پلازہ کے حادثہ کے 13 شہید فائر ریسکیورز کو زبردست خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں، جنہوں نے فائر اینڈ ریسکیو آپریشن کے دوران اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ملک میں فائر فائٹنگ کی تاریخ بدل دی۔ ان گمنام ہیروز کا تعلق پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ، ریسکیو 1122، سٹی فائر بریگیڈ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ فائر فائٹرز نہ صرف آگ کے شعلوں پر پانی چھڑکتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کی حفاظت کے لیے اپنی جان بھی بروقت قربان کر سکتے ہیں۔ اس پیشے کو بدلنے کے لیے ان کی ان گنت کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں بلند مقام عطاء فرمائے، جنہوں نے دوسروں کو بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور اپنے اپنے ممالک میں محفوظ کمیونٹیز کی ترقی کے لیے ان کی بے شمار کوششوں کے لیے دنیا بھر کی قوموں کے حقیقی ہیروز کو سلام پیش کیا۔

 

تحریر : مِس دیبا شہناز اختر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button