کالم

بیانیہ جو غائب ہو گیا

ڈاکٹر محمد امجد
سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ
زیادہ پرانی نہیں، آٹھ دس برس پہلے کی بات ہے کہ سیاسی سطح پر کم، ریاستی سطح پر زیادہ ایک بیانیہ عام تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اس بیانیے کے ذریعے ایک اجتماعی قومی شعور کو بیدار کرنے کی ریاست پاکستان کوشش کر رہی ہے تا کہ ایک عالمی سازش سے آگاہ ہو کر پوری پاکستانی قوم اس عالمی سازش کو ناکام بنانے یا اسکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو سکے۔ وہ عالمی سازش جسکے لیے وہ قومی و ریاستی ’’بیانیہ‘‘ بنایا گیا تھا وہ عالمی سازش کئی پہلوئوں پر مشتمل تھی جسکے بانی اسرائیل، امریکہ وبھارت کے علاوہ بھی کئی ممالک تھے یا انکے حکمران تھے جو امریکی لابی یا اس لابی کے زیر ا ثر تھے۔ اس عالمی سازش کا پہلا متفقہ پہلویہ تھا کہ کسی بھی طرح مسلم ممالک کو مضبوط نہیں ہونے دینا۔ انہیں ہر حال میں سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھنا ہے تا کہ وہ مسلم ممالک معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہو کر کلی طور پر آزاد و خود مختار نہ ہو سکیں۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ مسلم قوم جسے بڑی مشکل سے مختلف ممالک کے نام پر تقسیم کیا گیا ہے، کمزور کیا گیا ہے، اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہے کہ یہ قوم کسی بھی طرح متحد ہو کر دوبارہ وہ طاقتور قوم نہ بن سکے جو عالم وجود میں آنے کے بعد تقریباََ ساری دنیا پر چھا گئی تھی اور مقصد کیلئے عالمی سطح پر کئی ایسے کام کر دیے گئے جو خود کار طریقے سے ہر وقت و ہر دور میں اپنا کام سر انجام دیتے رہیں، لہٰذا اس سازش پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا جسکے نتیجے میں کئی مسلم ممالک دہشت گردی و دیگر الزامات لگا کر تباہ کر دیے گئے، کئی سربراہان مملکت قتل کر وا دیے گئے، کئی حکومتیں ختم کروا کر ان ممالک کی معیشت تباہ کر دی گئی اور مسلم ممالک کے کئی حکمرانوں کو کسی نہ کسی طرح قابو کر کے ان ممالک کو پوری طرح غلام بنا لیا گیا مگر بھکاریوں سے بد تر حالت بنا کر !! یہ سازش اس قدر نتیجہ خیز اور کامیاب ثابت ہوئی کہ چند مسلم ممالک مثلاََ پاکستان و ایران کے علاوہ تمام مسلم ممالک اس عالمی سازش کا شکار ہو گئے اسکے بعد اس سازش کا تیسرا اہم پہلو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جو ملک اس سازش سے بچ گئے وہ کیوں بچے؟ تو سازشی جس نتیجے پر پہنچے وہ یہ تھا کہ اس سازش سے جو بھی ممالک محفوظ رہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی فوج مضبوط و طاقتور ہے۔ انکی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی سب سے متحرک، زیرک و باخبر ترین و با صلاحیت ایجنسیاں ہیں ،جسکی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے عوام سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہیں، یوں جب اس بات پر عالمی سازشیوں کا اتفاق ہوا تو متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ محفوظ رہ جانیوالے کیلئے الگ پالیسی بنانی ہے جو مستقل پالیسی ہو اور اس مقصد کے حصول تک ایک مستقل ادارے کے فرائض کی طرح اپنے فرائض انجام دیتی رہے ۔تا وقتیکہ مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہو جاتا اور اس پالیسی کے اصول بھی وضع کر دیے گئے جن میں سب سے پہلا اصول یہ تھا کہ جو ممالک اب تک اپنی فوج کی وجہ سے سلامت ہیں اور انکی فوج عوامی محبت کی وجہ سے سلامت ہے، اس ملک کی فوج کو کسی بھی طرح کمزور کیا جائے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ سب سے پہلے فوج کو کمزور کرنا ہے تو یہ بھی طے ہوا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے ؟ لہٰذا جب یہ طے ہو گیا کہ ٹارگٹ ممالک کی فوج کو سب سے پہلے کمزور کرنا ہے تو یہ بھی سوچا گیا کہ یہ کام کرنا کیسے ہے؟ جب اس نقطے پر کام شروع کیا گیا کہ یہ کام کرنا کیسے ہے؟ تو سب سازشی اس بات پر متفق ہو گئے کہ بچے ہوئے جن بھی ممالک کو اب ختم یا کمزور کرنا ہے اسکے لیے بہت ضروری یہ ہے کہ ان ممالک کے عوام کے دلوں میں کسی بھی طرح اپنی فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے، عوام فوج کیخلاف ہو کر اپنی ہی فوج کے سامنے مخالف بن کر کھڑے ہونگے تب ہی وہ فوج کمزور ہوگی، بس اتنا ہوگیا تو باقی کام آسان ہوگا۔ لہٰذا فوری طور پر اس عالمی پالیسی پر عمل شروع کر دیا گیا اور جیسے ہی اس پر عمل شروع ہوا ریاست پاکستان کو اپنی زیرک ایجنسیوں کے ذریعے اسکا علم ہو گیا لہٰذا فورََاہی اسکا توڑ شروع کر دیا گیا، مشکل یہ تھی کہ عوام کو سمجھانا کوئی آسان کام نہ تھا صرف تیسرا پہلو ہی اجاگر کیا جاتا تو عوام کو کچھ بھی سمجھ نہ آتا لہٰذا!!! ریاست پاکستان کو اس سازش کے پہلو نمبر ایک اور پہلو نمبر دو بھی عوام کو سمجھانے پڑتے۔ یہ کام آٹھ دس برس قبل ہی ریاستی ترجیح کے طور پر شروع کیا گیا، لوگوں کو بتایا گیا کہ کس طرح عالمی سازشیوں نے پوری مسلم دنیا کو تباہ کرنے یا اپنا غلام بے دام بنانے کیلئے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا ہے؟ ریاست پاکستان نے اپنے عوام کو بتایا کہ کس طرح ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا ہے جو اسلحہ سے نہیں ،فوج سے نہیں لڑی جانی۔ یہ جنگ جن ہتھیاروں سے لڑی جانی ہے وہ ہتھیار اس جنگ کا سب سے خطرناک و موثر ہتھیار میڈیا کو قرار دیا گیا اسکے بعد دوسرے ہتھیاروں کی نمائش خود بخود ہو گئی اور تقریباََ ہوتی چلی جا رہی ہے، اس غیر اعلانیہ جنگ کا نام بتایا گیا ’’ففتھ جنریشن وار یا ہائیبریڈ وار‘‘ لیکن!! تین چار برس پہلے اچانک ہی عوام شعور کی بیداری کا یہ سلسلہ یوں ختم کر دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ،لیکن اسکے بعد آج تک یعنی گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان جس قسم کے معاملات و حالات سے دو چار ہوا۔ جن تازہ ترین یعنی آج اس ہفتے میں آزاد کشمیر میں جو کچھ دیکھنے و سننے کو ملا، اسکے دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ جو ہائیبریڈ وار پاکستان کیخلاف پاکستان دشمنوں نے شروع کی تھی یعنی عوام اور فوج میں دوریاں پیدا کرنا، یہ مقصد حاصل کرنے کے بعد دشمن اس مقام تک جا پہنچے ہیں جہاں سے پاکستان کو توڑنے کا از سر نو آغاز ہوتا ہے یعنی کشمیر لینے کے بجائے توجہ کشمیر بچانے پر مرکوز کر دی گئی ہے، کشمیر کا موجودہ حال جیسا ظاہر کیا جا رہا ہے حقیقت میں وہی ہے یا یہ حال بھی اسی ہائیبریڈ وار کا حصہ ہے؟ اسکا فیصلہ جلد سامنے اسطرح آجائیگا کہ اگر یہ حال اتفاقیہ ہے یعنی وقتی عوامی مطالبہ یا مسئلہ ہے تو پھر ریاست پاکستان یا حکومت پاکستان سب مسئلے چھوڑ کر سب سے پہلے اس معاملے کو اس لیے حل کرے گی کہ !!!
ان حالات سے دشمن کوئی فائدہ نہ اٹھائے اور اگر ریاست یا حکومت اس مسئلے کو فوری طور پر ختم نہیں کرتی، کشمیر میں بد امنی و انتشار شروع ہوا، وہ جواز بجلی و آٹے کے نرخ ہیں تو یہ جواز حکومت ختم کر سکتی ہے اور اگر یہ جواز ختم نہیں ہوتا تو پھر اسکے بعد یہ سوچ درست ہوگی کہ!!! اس خونریزی کو وجود میں لانے کیلئے بجلی و آٹے کا بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تا کہ کشمیری اسے جواز بنا کر وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہو جائیں جو کسی بھی صورت میں ریاست پاکستان کے حق میں نہیں! کشمیر میں پیدا ہونیوالی شورش بظاہر بجلی و آٹے کی وجہ سے ہے لیکن جو سوچیں کئی بار بدلتے عالمی تیور و چہرے دیکھ چکی ہیں وہ اس سامنے نظر آنیوالے جواز کے علاوہ دیگر پوشیدہ پہلوئوں پر متفکر ہیں۔ بار بار کے ڈسے ہوئے سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ واقعہ کشمیر بھی کہیں اس عالمی غیر اعلانیہ جنگ کا نتیجہ تو نہیں جو پاکستان کو توڑنے یا کمزور کرنے کیلئے ہائبریڈ وار کے نام سے پاکستان کیخلاف اسکے دشمنوں نے شروع کر رکھی ہے کچھ سوچیں اس لیے بھی سر میں ابھرتی ہیں کہ ہائبریڈ وار کیخلاف جو بیانیہ ریاست پاکستان کا کچھ برس بڑے زور و شور سے جاری رہا ہے وہ گزشتہ تین چار برسوں میں کہاں غائب ہو گیا ہے؟ پاکستان کیخلاف ایک خطرناک غیر اعلانیہ جنگ پاکستان کے دشمنوں نے شروع کر رکھی ہے، اس پر بات اب کیوں نہیں ہوتی؟ اب ساری توجہ اس پارٹی پر ہی کیوں مرکوز ہے، جو واحد پارٹی فوج کے مخالف تھی نہ ہے۔ اب پاکستان مخالف قوتوں کے وفادار دو خاندان جو اپنی بادشاہی کے راستے کی رکاوٹ فوج کی بادشاہی کو سمجھتے ہیں اور سر ے عام فوج کیخلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، وہ آج ریاست کے سر کا تاج کیوں ہیں؟ آج پاکستان کے چپے چپے پر ریاست و فوج کیخلاف نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ عوام کے دلوں میں پائی جانیوالی نفرت کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید بڑھانے کی کوششوں کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ کاوشیں اسی ہائبریڈ وار کا حصہ تو نہیں جو دشمنوں کے پاکستان کیخلاف شروع کر رکھی ہے؟
پاکستانی عوام اور ریاست کے ادارے ایکدوسرے سے ٹکرانے کیلئے اپنی اپنی جگہ صف آراء ہو چکے ہیں۔ یہ ذمہ داروں کو نظر کیوں نہیں آرہا؟ دشمن یہی تو چاہتے تھے، یہ بات ذمہ داروں کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی؟ اب تو بات پاکستان کی بقاء و سلامتی تک جا پہنچی ہے، اس پر غور کر کے پاکستان کو درپیش خطروں سے کون بچائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ 80%پاکستانی ذمہ داروں کو صرف دیا8فیصد کیوں نظر آرہے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ جن کا کام ہی آگ بجھانا ہے وہ جلتی پر تیل چھڑک کر ملک یا قوم کی یا خود اپنی کیا خدمت کر رہے ہیں؟ کسی کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اگر مغربی پاکستانی بھی مشرقی پاکستانیوں جیسے بنا دیے گئے تو پھر کیا ہوگا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button