عوامی جمہوریہ چین (PRC) بہت اہم ترین معاملات میں 21st صدی سے بہت سے انقلابی اقدامات کا آغاز یقینی بنایا ہے۔ رواں صدی کے دوران چین میں جن بنیادی عوامل نے بنیادی تبدیلی کو یقینی بنایا ہے ان میں سے ایک جمہوری روایات کی عملی مشق اور فروغ ہے۔ عوامی جمہوریہ چین نے جس طرح سے ٹھوس جمہوری اقدار کو ملک میں فروغ اور مستحکم کیا ہے اور جس طرح سے اداروں کو مستحکم انداز میں ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا ہے، ان عوامل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے پورے چین کو ایک وحدت کی صورت ان اداروں کیساتھ لوگوں کو با اختیار بنانے کیساتھ چین کی اصطلاح ” میں پورے عمل کو لوگوں کی جمہوریت” کے ساتھ جمہوریت سے منسلک کر دیا ہے۔یہ بنیادی طور پر وہ تصور جو چینی صدر شی جن پنگ نے 2019 میں شنگھائی میں ایک دورے کے دوران پیش کیا۔ یہ وہ تصور اور ویژن ہے چین کے لوگوں کو ہر سطح پر ملک کی فیصلہ سازی اور حکمرانی میں شامل کرنے کا حق دیتا ہے اور اس فلاسفی اور ویژن سے کلی طور پر چین کے سیاسی نظام کو وضاحت سے سمجھا جا سکتا ہے۔چین میں تمام تر عوامل اور لائحہ عمل کیساتھ لوگوں کی جمہوریت کے حوالے سے عوام کی مرکزی حیثیت کی نمائندگی ظاہر کرتی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ نظریے، کلاس، جغرافیہ، نسل کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر عوام کی مشترک بہبود کے حصول کے طور پر لوگوں پر مرکوز پالیسیز اور ویژن کی عکاسی کرتی ہے. یہ ہی وہ مقصد ہے جو چین کی کیمونسٹ پارٹی لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ بناتی ہے اور عوام کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اور لوگوں کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔بنیادی طور پر یہ وہ ایجنڈا ہے جو جمہوریت کے مغربی نظریات سے مختلف ہے، جہاں پر سیاسی ایجنڈا انتخابات میں جیتنے والی جماعت کی طرف سے بنیادی طور پر واضح کیا جاتا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ ایجنڈا اور نقطہ نظر ان لوگوں کی زندگی سے مماثلت نہیں رکھتا اور ایک طرح سے ان لوگوں کی فیصلہ سازی میں شرکت کو محدوم کر دیتا ہے جن کی زندگی کے حوالے سے فیصلہ سازی کی جا رہی ہوتی ہے۔ اور یوں ایک ایسا ایجنڈا مرتب کر دیا جاتا ہے جو طاقتور حلقوں نے مرتب کیا ہوتا ہے جو فیصلہ سازی کو کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات اور کنٹرولنگ عناصر کے عوامل کو مدنظر رکھ کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ لہذا عوامی جمہوریہ میں، تمام سطح اور بورڈ بھر میں لوگوں کی آوازوں کو صرف انتخابی عمل کے دوران ہی نہیں سنا جاتا بلکہ انہیںنیشنل پیپلز کانگریس کے ملکہ سطح پر فورمز اور ٹاؤن شپ فورمز پر بھی حق رائے دہی دیا جاتا ہے اور انکی آواز کو بھر پور انداز میں سنا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح سے عوامی جمہوریہ چین میں ناصرف جمہوری عمل میں، 1.4 ارب لوگوں کی آوازوں اور خواہشات کو سنا جاتا ہے بلکہ نیشنل پیپلز کانگریس کے تمام تر سطح پر ہونیوالے اجلاسوں میں انہیں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس براہ راست جمہوری عمل سے ڈیڑھ ارب چینی لوگوں کو فیصلہ سازی میں بھر پور نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ چند افراد یا لابی گروپس، یا ایک اشرافیہ سے متاثر ہونے سے عمل سے بچنے کے لئے، چینی انتخابات مکمل طور قومی سرکاری خزانے کی طرف سے فنڈز کی فراہمی سے منعقد ہوتے ہیں.
پورے عمل تک اس عوامی جمہوری عمل کو اس طرح سے مرتب اور ڈیزائن کیا گیا ہے کہ لوگوں کو انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ کے دوران نہ صرف فیصلہ سازی میں شمولیت یقینی بنائی جاتی ہے اور لوگوں کو خالی انتخابی وعدوں کے ساتھ نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ نیشنل پیپلز کانگریس میں ان انتخاباتی وعدوں جس کے تحت وہ گورننس معاملات اور باقاعدہ فیصلہ سازی میں، پالیسی کے فیصلوں میں شرکت کے نفاذ کی نگرانی کرنے کے قابل ہوتے ہیں. چین میں اس حوالے سے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں رواں رکھا جاتا اور اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ عوامی رہنما خدمت اور قومی مفادات کو ترجیح بنائیں. چین کے سرکاری اداروں کو تمام سطحوں پر، شہریوں کی ضروریات اور خدشات کے حوالے سے جوابدہ اور ذمہ دار ہونا ہوتا ہے. اس کے علاوہ، عوامی رائے اور آراء کو بھی قوانین کیساتھ ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور قانون سازی بامعنی عوامی شرکت اور جمہوری فیصلہ سازی کو اس طرح سے مرتب کیا جاتا ہے کہ اس میں عوامی مفادات کو فیصلہ سازی میں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اس طرح سے ان اقدامات کی بدولت چین میں مطلق غربت کے خاتمے کے حصول کو یقینی بنایا گیا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ عوام کی سربراہی میں چینی جمہوریت درحقیقت گڈ گورننس یا عوامی اشیا کی موثر خدمات کی فراہمی کی یقین دھانی سے منسلک ہے۔کیمونسٹ پارٹی آف چائنہ نے بنیادی اور اعلی درجے کی تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، روزگار، اور حفاظت اور مختلف شہریوں اور متنوع کمیونٹیز کے لئے ان سہولیات کی فراہمی کے اس نادر کارنامہ کو یقینی بنایا ہے۔ یہ مستقل مزاجی، پالیسی اور پروگرام مظاہرہ درحقیقت عام اشیا کے حصول اور دیگر ممالک میں، سیاسی انتظامیہ میں تبدیلیوں سے بچنے سےمماثل ہے۔ لفظ "حکومت”، 2015 ورلڈ پبلک سروس کی رپورٹ کی طرف سے ایک تعریف کا استعمال کرتے ہوئے "سٹیئرنگ سے مراد ہے. اسٹیئرنگ، مثال کے طور پر ایک جہاز، ایسا جہاز جسے نا صرف ڈوبنے سے بچایا جائے بلکہ اسے آگے دائیں بائیں بڑھاتے ہوئے تیرایا جائے۔ سب سے اہم بات، "جہاز کی سمت کا علم اور اس امر کو سختی سے یقینی بنایا جائے کہ جہاز اپنی متعین سمت میں سفر بھی جاری رکھے۔ جہاز مسلسل اس سمت میں اپنی لائن پر سفر جاری رکھے، یہ ہی وہ لائن جو سی پی سی کو اپنے شہریوں کو متعین کردہ سمت میں سفر کو جاری رکھے جو بلاشبہ دنیا بھر کے لیے حسد کا سبب بنے اور یوں اپنے شہریوں کو تاریخی کامیابی کی جانب لیکر بڑھتی رہے اور سفر جاری رکھے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کے کہ صدر شی جنپنگ فرماتے ہیں "جمہوریت سجاوٹ کے لئے استعمال کیا جانیوالا ایک زیور نہیں ہے؛ بلکہ اسے استعمال کیا جانا چاہیے ان مسائل کے حل کے لیے جو لوگ حل کرنا چاہتے ہیں۔تمام امور سے متعلق عوامی جمہوریہ مشترکہ مفادات کی خدمت اور ٹھوس سماجی فوائد یکساں انداز میں فراہم کرنے کے لئے سمجھا جاتا ہے.
انہی عوامل کی بدولت چین نے دنیا کی سب سے بڑی سوشل سیکورٹی کے نظام اور ایک بنیادی میڈیکل انشورنس کوریج ملک کی آبادی کا 95 فیصد سے زیادہ تک کامیابی سے پہنچایا ہے۔اس کیساتھ ساتھ چین نے اسی فعال اور موثر نظام کی بدولت 770 ملین چینی شہریوں کو گزشتہ چار دہائیوں میں انتہائی غربت کی سطح سے اٹھا کر انکے معیار زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ عالمی بینک کی بین الاقوامی غربت کی لکیر کے مطابق، لوگوں کی مجموعی تعداد کے حساب سے چین اسی عرصے میں دنیا کی مجموعی تعداد کا 70 فیصد انتہائی غربت سے باہر نکالا لایا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ کے غربت کے خاتمے کا ہدف 10 سال قبل ہی پائیدار ترقی کیساتھ حاصل کر لیا ہے اور اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈا کے اہداف کو حاصل کر لیا ہے.دوسری جانب دنیا کر وائرس کے ویرینٹ سے نبر آزما ہے لیکن چین نے اپنے موثر نظام کی بدولت نا صرف اس پر کنٹرول یقینی بنایا ہے بلکہ اقتصادی سطح پر بھی درپیش چیلنجز کو کنٹرول کیا ہے، چین نے اقتصادی ترقی کو برقرار رکھ کر دنیا پر واضح کیا ہے اور جمہوری روایات کے فروغ سے چین دنیا پر واضح کر دیا کے کہ جمہوریت کو اس کی تمام حالتوں میں سنبھالا جا سکتا ہے اور جمہوریت اب مغرب کی پروردہ نہیں ہے۔چین نے دکھایا ہے کہ چین کا جمہوری نظام کسی خلاء سے نہیں آیا ہے بلکہ یہ ان عملی اقدامات کا نتیجہ ہے جو چین اور دیگر ممالک میں مکمل موثر انداز میں لاگو کرنے سے سامنے آیا ہے دنیا کو دیکھنا ہو گا کہ کچھ ممالک، طاقت اور بالادستی کی مدد سے اپنی جمہوریت کو سب سے بہترین اور زبردستی لاگو کروانے کے خواہشمند ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ کسی کے سوٹ کی نقل کریں یا مغربی ماڈل کو بہترین سمجھیں اور انہیں عوامل کے سبب نوے کی دہائی میں روس میں تباہی ہوئی اور گزشتہ سال 2021 میں افغانستان میں لوگوں سے بغاوت کی۔
بسا اوقات جب ایک حکومت اور چند مفاد پرست گروپوں کی طرف سے غلبہ کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر ترقی اور عمل میں اکثریت کو جمہوریت کے ثمرات سے فاہدہ مند ہونے سے خارج کر دیا جاتا ہے، جو بجا طور پر خراب طرز حکمرانی کی ایک مثال ہے.۔۔
0 0 6 minutes read



