کالم

پاکستان کی معیشت اور برادر اسلامی ممالک کا کردار

ہماری تارخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے اور ہمیں سننے کو ملا کہ پاکستان میں ایک ایسے وقت میں حکومت تبدیل ہوئی ہے جب ملک کی معیشت دباو کا شکار ہے اور نئی حکومت جس کے بارے میں ابھی یہ بھی طے نہیں کہ وہ کب تک چلتے رہنا ہے یا چلنے دیا جائے گا اور کب ملک میں انتخابات کرانا چاہتی ہے، کیا وہ ایسے اقدامات کر سکتی ہے جو سابقہ حکومت سے مختلف ہوں اور معیشت کو درست ڈگر پر ڈال سکے جو دیر پا ہو اور آئندہ حکومت بھی اس کے تسلسل کو آگے لے چل سکے۔مظبوط معشیت کا دارومدار سمجھتے ہمیشہ پالسیز کے تسلسل پر ہوتا ہیاور کسی بھی حکومت کہ ان اقدامات کا تعلق بھی اس بات سے ہے کہ یہ حکومت کب تک رہنا چاہتی ہے ظاہری بات ہے۔ کسی بھی حکومت کے اقدامات اور پالیسیاں اعوام کیلئے مفید ہوں اور انھیں فائدہ اورکسی حد تک معاشی لحاظ سے زندگی میں بہتری اور تبدیلی نظر آرہی ہو تو کوئی اپوزیشن ہو وہ اعوام کو کسی بھی حکومت کے خلاف احتجاج یا مخالفت پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ یہ بات ہمیشہ کہی جاتی ہے مشکل فیصلے کیے بغیر معیشت کو درست کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اب جب کہ ملک کا تجارتی خسارہ انتہا کی حد تک بہت بڑھ چکا ہے موجودہ حکومت کے سابق دور میں بھی جب ن لیگ کی حکومت کی مدت ختم ہوئی تھی اس وقت بھی یہ تجارتی خسارہ بہت زیادہ تھا۔ دو ہزار سترہ اٹھارہ میں یہ تجارتی خسارہ 19 ارب ڈالر کے قریب تھا۔ اورجو معاشی حالات دکھائی دیتے ہیں اس سال بھی خیال یہی ہے کہ یہ خسارہ مزید بڑھے سکتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ ان کے سابقہ دور می اس خسارے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر برقرار رکھا گیا تھا اور اس پی ٹی دورمیں کرونا کے بعد کے دور میں ساری دنیا میں قیمتیں بڑھی ہیں، افراط زر بڑھا ہے اور جو تھوڑی بہت بحالی کی صورت حال نظر آئی رہی تھی وہ یوکرین پر روس کے حملیاور یورپ اور امریکی مداخلت کیباعث معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔کسی بھی جانیوالی حکومت کی جانب سییہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان کی حکومت نے معیشت کو بہتر حالت میں چھوڑا تھا۔ یہی کچھ ن لیگ کے اس وقت کیسابق اور موجودہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور انکہ ناقص پالیسیوں نے اس حال پر پہنچایا اور یہ وہ یہ بھی کہتء سنے گئے کہوہ جانتے ہیں کہ غلطیاں کہاں ہوئیں اور وہ انہیں ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مگربعد کے حالات بھی سب نے دیکھے۔اب جبکہ اس وقت لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نئی حکومت پچھلی حکومت سے مختلف کیا اقدامات کر سکتی ہے جن سیمعیشت بہتر ہو سکے اور عام آدمی تک بھی اس کے ثمرات پہنچ سکیں۔ کیا وہ مشکل فیصلے کرنے کیلیے تیا ر ہے؟ کیونکہ اس وقت وزیر خزانہ سابقہ وزیر خزانہ سے مختلف اور بینکر ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف معاشی سکالرز یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومت کو درآمدات میں بھاری کمی کرنی چاہئیے۔ اور انتہائ ضروری اشیاء کے علاوہ ہر چیز کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہئیے اس سے حکومت دس سے پندرہ ارب ڈالریا اس سے زیادہ کی تک کی بچت کر سکتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا بجٹ ایک عرصہ سے خسارک کا شکار رہا ہے اور دنیا کے معاشی حالات نے ملکی معاشی حالات پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے اس میں ہر آنے والے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ اب اگر بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئیاخراجات کو منجمد کردیا جائے۔ جہاں سابقہ حکو مت نے چھوڑا تھا۔اورمعاشی اعشاریے مثبت ہونے تک کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی بجٹ میں شامل نہیں کیا جاتا۔ تو ن لیگی حکومت کی سیاسی ساخ کہاں کھڑی ہو گی جو الیکشن مہم کے دوران بلند بالا واعدے اور عہد دیئے گے تھے اگرچہ وہ اس وعدے اور عہد سب ہی پارٹیوں نے کئے اور ہمیشہ کئے جاتے ہیں مگر اس وقت اب یہ ن لیگی حکومت پر ہے کہ وہ جیسے تیسیسہی حکومت میں اور انکو بعد میں دوبارہ انہی عوام کے پاس جانا ہے۔حکومت کو آئندہ پیش کئے جانے وسلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافے سے اجتناب کرنا چاہیئے اور اس سے ہٹ کر ایسی معاشی پالیسیاں اپنانی ہونگی جودیرپا اور تجارتی خسارے اور مہنگاہی کوکم کرسکتے ہیں نہ کہ کوئی ایسا عارضی سیاسی فیصلہ ہے جس سے نہ تو مہنگائی کے بوجھ میں کمی ہو گی نہ لوگوں کو دیرپا ریلیف ملیگا، بلکہ یہ بجٹ خسارے کو مزید اور بھی بڑھا دے گا۔اب کیونکہ نئی حکومت کو عنقریب بجٹ بھی پیش کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا بجٹ ہوگا جوحکومت کی آئندہ کیراہ کو متعین کرے گا۔ تما تر اعشاریوں سے بالانظر موجودہ حکومت بجٹ میں عام آدمی کو جتنی بھی سہولتیں ممکن ہوں، جتنی بھی رعائیتیں ممکن ہوں، وہ دینا چاہۓ گی تاکہ مخالفین کی حکمت مخالفت بھی کمی لائی جا سکیاور زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔لہذا آنے والے بجٹ کے نتیجے میں خساروں میں اور بھی اضافہ ممکن ہو سکتا ہے اور موجوہ حکومت کیپہلے چندمیں حکومت عوام کو کوئی بھی خاطر خواہ فوری ریلیف نہیں دے سکی اورمجموعی طور پر معیشت میں بہتری کی توقع کسی معجزے کی امید کی طرح ہوگی۔ ہر سابقہ حکومت کا ایجنڈا رہا ہے کہ اس کی معاشی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا تھی، لیکن گزشتہ چند سالوں میں کووڈ کی وجہ سے عالمی معاشی صورتحال جو سست روی کاشکار رہی یہ مقصد حاصل نہ کیا جاسکا۔ پاکستان کے معاشی حالات جو کہ خراب ہیں مگر اس کے باوجود وزیر خزانہ نیپاکستان کے فارن اکسچینج ریزرو کے بارے میں جواعدادو شمار دئیے۔ جن کے مطابق موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اضافہ نوٹ کیا گیا ہے اور صرف چند ماہ کے دوران یہ دس ارب ڈالر تک پہنچ گے ہیں۔اس کے باوجود بھی موجودہ حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، کہ پھر حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے۔ دوسری طرف اس کو آئی ایم ایف کی مزید کڑی شرائط قبول کرنی پڑریں ہیں۔ جن کے مطابق حکومت کوخاص طور پر پٹرول اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ اور حالیہ اضافہ نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے مگر آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کے بعد آنے والے ہفتوں میں ان میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی وصولی بڑھانا پڑے گی جو موجودہ حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ اس کیعلاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اورحکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے کیلیے تیار نہیں ہو سکتی جواسے عوام میں غیر مقبول ہونے کی وجہ ہو اور موجودہ حکومت کہ آغاز میں ہی اس پرکوئی منفی اثر ڈالے۔ آئی ایم۔ ایف کی سخت شرائط کے باوجود عام انتخابات کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد محمدشہباز شریف کی حکومت نے ان تمام منفی اثرات کو قلیل مدت میں زائل کیا اور حکومت کو دوبارہ ڈھلوان سے بلندی کی طرف ایک ڈگر پر ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ موجودہ حکومت جس کی قیادت شہباز شریف کررہے ہیں۔ یہ ان کی فراست اور ویژن کا نتیجہ ہے کہ انکی ٹیم نے ملک کے معاشی اشاریوں کو مثبت سمت دی ہے اس میں تمام وزارتوں اور حکومتی اداروں کا کردار شامل حال ہے۔ کہ پاکستان کے دوست ممالک نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا اور یکے بعد دیگرے دوست ممالک کے اعلی سطحی وفود نے ملک کے دورے کرکے پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ حال ہی دوست مسلم ممالک جن میں اعلی سطحی سعودی وفد کی سعودی وزیرخارجہ کی قیادت میں پاکستان آمد اور تجارتی معاہدوں پر دستخط اہم پیشرفت ہے۔اور ساتھ ہی ایران کے صدر ابراھیم ریئسی کا اعلی سطحی وفد کے ہمرا پاکستان تشریف لانا جس کے مطابق ایران اور پاکستان کے درمیان پانچ سال میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم خوش آئند ہے۔ ایران سے تجارت کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ جنوبی ایشیاء کی ترقی کیلئے اب ضروری ہے کہ خطے میں دہشتگردی کو فروغ دینے اور سازشیں کرنیوالی طاقتوں اور انکے اتحادیوں کی چالوں کو ملکر ناکام بناناہوگا۔ اوراس امر کیلئے ضروری ہیکہ خطے کے تمام ہم خیال ممالک انٹیلیجنس معلومات کے بروقت تبادلے کیلئے منظم طریقہ کار اپنائیں۔ اور انٹیلیجنس تعاون کو وسیع کرکے جنوبی ایشیاء کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کریں جو علاقے کے امن اور ترقی میں مدد گار ہوسکے۔ جس کیلئے چین سے سفارتی محاذ پر کردار ادا کرنے متعلق کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سی پیک کی وجہ سے چین کا علاقے میں اثرورسوخ زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ ایران میں کے اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کئے رکھیں۔ اس وقت سے ایران امریکہ کی سخت پابندیوں کے زیر اثر ہے۔ عالمی طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج بڑھائی گئی۔ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات منقطع رہے۔ سی پیک کے گوادر تک پہنچنے اور علاقائی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی کوششیں شروع کیں جو باآور ثابت ہوئیں اور چین ایران اور سعودی عرب کے نہ صرف سفارتی تعلقات بحال کانے میں کامیاب ہوا اور جس کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوچکی ہے اور دونوں ممالک مسلم امہ کی مضبوطی اور خطے میں مستقل پائیدار امن کے قیام کیلئے ایک دوسرے سے دوستی کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کیمابین سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد پاکستان کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ایران نے ہمیشہ پاکستان کو وسیع تجارتی تعلقات کی پیشکش کی، لیکن پاکستان اپنی سفارتی مجبوریوں کی بنا پر پر ایران سے اس قدر تجارت نہیں کرسکا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان ہزاروں کلومیٹر طویل خشکی اور سمندری سرحد ملتی ہے۔ تجارت میں کمی عالمی طاقتوں کے دباؤ پر تھی اور اب ایران و سعودی عرب کے درمیان بہترین تعلقات کے قیام کے بعد پاکستان نے ایران سے تجارت میں زبردست اضافہ کیا ہے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آئے گا اور ملک میں مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا۔ اسی طرح ایران پر عالمی پابندیوں کے اثرات میں کمی آئے گی اور ایران کو بھی معاشی طور پر استحکام حاصل ہوگا۔ ایران نے تو ہمیشہ پاکستان کو تین ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات دینے کی پیشکش برقرار رکھی۔ اگر ہم ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی پاکستان میں آنے سے ملک میں مہنگائی کی موجودہ شرح میں زبردست کمی آئے گی۔اپنے حالیہ دورے کے دوران ایرانی صدر محترم ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کیساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے اور اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا، جس سے سرحدی علاقوں پنجگور اور گوادر کو بجلی فراہم ہوگی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کئے جائیں تو دونوں ممالک میں تجارت میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد پر درجنوں تجارتی پوائنٹس اور بارڈر مارکیٹیں پہلی ترجیح میں بننی چاہئیں، جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو سہارا ملے گا اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان بہترین تجارتی تعلقات کیلئے آر سی ڈی شاہراہ موجود ہے اور اس میں توسیع کرکے اور ٹرین کا منظم نظام قائم کرکے خطے میں مقامی تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ چین بھی سی پیک کو افغانستان، ایران اور ترکیہ تک لے جانے کا خواہاں ہے، جس سے پاکستان ان ممالک کے درمیان حب کا کام کرکے بہترین معاشی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ ایران سعودیہ دوستی کے بعد خطے میں نئی تجارتی راہیں کھلنا شروع ہوں گی۔ پاکستان، ایران، چین، روس اور سعودی عرب کیساتھ ساتھ ترکی کو بھی مل کر اب اپنیاپنے ملکی سطح اور علاقائی ترقی پرتعاون کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ان تمام تر کامیابیوں کے پیچھے کردارصرف موجودہ حکومت کے سر ہے۔ جس کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف کوجاتا ہیاورانکی بدولت ہی ممکن ہواہے۔ اور شہباز سپیڈ سے حاصل شدہ ثمرات اب عوام تک پہنچنا شروع ہو رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button