کالم

پاکستان میں پولیو سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی ضرورت واہمیت

ٹی ایم چوہدری
newsmedia587@gmail.com03101917612
پاکستان دنیا کے ان دو باقی ماندہ ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو بدستور وبائی مرض ہے۔ اس بیماری کے خاتمے کی بھرپورکوششوں کے باوجود پولیو پاکستان میں صحت عامہ کے لیے اہم خطرہ ہے۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ اس بیماری کے پھیلاو سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔قارئین کرام پاکستان میں پولیو کے برقرار رہنے کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔جن میں تنازعات کی وجہ سے بعض علاقوں تک عدم رسائی، ویکسین کے بارے میں غلط معلومات و بے بنیاد اطلاعات جیسے چیلنجز شامل ہیں۔ پولیو سے متاثرہ پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ ملک کی غیر محفوظ سرحدیں بھی پولیو پھیلا کی ایک اہم وجہ ہے۔پولیو کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی طرز عمل اپنانا ضروری ہے۔ حکومت اور صحت کی دیکھ بھال کے حکام کو پولیو کے خطرات اور ویکسینیشن کی اہمیت بارے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے ملک گیرموثر آگاہی مہم شروع کریں۔ اس مہم کو ان غلط فہمیوں اور غلط معلومات کو دور کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے جن کی وجہ سے کچھ علاقوں میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ پیدا ہوئی ہے۔ حکومت کو صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے،دیہی و دوردراز کے علاقہ جات میں صحت کی دیکھ بھال کی مزید سہولیات کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی تربیت، اور ویکسین اور دیگر طبی آلات کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ حکومت کو تکنیکی مہارت، فنڈنگ اور وسائل تک رسائی کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں اور تنظیموں بشمول ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور یونیسیف کا مکمل اعتماد حاصل کرکے کام کرنا ہوگا۔ ان تنظیموں نے عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی کوششوں کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے اوراس ضمن میں پاکستان کی جانب سے انسداد پولیو کی کوششوں کو قابل قدرتقویت فراہم ہوسکتی ہے ۔حکومت کو تنازعات کی وجہ سے بعض علاقوں تک رسائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور ویکسینیشن ٹیموں تک رسائی کے لیے بات چیت کے لیے مقامی رہنماوں اور کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنا شامل ہے۔پاکستان میں پولیو کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت، محکمہ صحت ، بین الاقوامی شراکت داروں اور عوام کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پاکستان میں ہر بچے کو زندگی بچانے والی ویکسین تک رسائی حاصل ہو تب ہی ہم اپنے ملک سے پولیو کے خاتمے اور اپنے بچوں کے صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کی امید کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان 1988 میں گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (جی پی ای آئی) کے آغاز کے بعد سے پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ اہم پیش رفت کے باوجود ملک کو اب بھی اس بیماری کے خاتمے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ زیادہ خطرے والے علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے پاکستان میں 2011 میں، حکومت نے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان (NEAP) کا آغاز کیا۔پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹیو (PEI) 1994 میں شروع کیا گیا جوکہ ویکسینیشن مہم، نگرانی، اور کمیونٹی کی شمولیت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ملک بھر میں ویکسینیشن کی باقاعدہ مہمیں چلائی گئیں، پاکستان نے پولیو کے کیسز کا پتہ لگانے اور ان کا جواب دینے کے لیے نگرانی کا ایک مضبوط نظام قائم کیا ۔ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے، اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں اعتماد پیدا کرنے کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کی گئی ۔انسداد پولیو کے لیے پاکستان کو عالمی ادارہ صحت (WHO)، یونیسیف، اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن سمیت بین الاقوامی شراکت داروں سے نمایاں مدد ملی ۔اعدادو شمار سے ہٹ کر یہ وہ حقائق یاکوششیں ہیں جوکہ عالمی اداروں کی معاونت سے مختلف پاکستانی حکومتوں نے انسداد پولیو مہم کی کامیابی کے لیے کیں۔اگرچہ ان کوششوں کے خاطر خواہ مثبت نتائج ملے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ ان لامتناہی کوششوں کے باوجود پاکستان پولیو کے مرض سے مکمل چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔من حیث القوم ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اپنی نسل کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے اور انہیں معاشرے پر بوجھ بنانے سے روکنے کے لیے باہم مل کر ٹھوس اقدامات یقینی بنانے ہوں گے اور وہ تمام ذرائع بند کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے پولیو کامرض ہماری نسلوں کے درپے ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button