کالم

سازش یا انتقام

ڈاکٹر محمد امجد
سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ
ایک مقامی فرد یا نمائندے کے طور پر، فلاحی تنظیم شیلٹر انٹرنیشنل کے چئیرمین کے طور پر، پرویز مشرف کے ایک وزیر ، ق لیگ کے ایک عہدیدار کے طور پر میں ڈاکٹر محمد امجد اسلام آباد کے دیہی و شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی اور عوام کی سہولت کیلئے کام کرتا رہا ہوں۔ کئی دہائیوں سے میرا دفتر اسلام آباد میں ہی موجود رہا ہے، لہٰذا اسلام آباد کے دیہی و شہری عوام سے مسلسل رابطہ بھی رہا ہے اور چئیرمین اسلام آباد گروپ کی حیثیت سے یہ تعلق آج تک موجود ہے۔ سیکٹرG-6 اسلام آباد کی فیڈریشن آف G-6 اور ایکشن کمیٹیG-6 اسلام آباد کے جن نمائندوں کے ساتھ ماضی میں رابطہ قائم تھا، جن کے ذریعے G-6 اسلام آباد کے رہائشیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے بہارہ کہو میں گیس کی فراہمی کی تقریب میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب شوکت عزیز سے سیکٹر G-6 کے مالکانہ حقوق دلوانے کا اعلان کروایا تھا۔ G-6 کے ان نمائندگان سے رابطہ اب بھی برقرار ہے اور انہی کی فراہم کردہ اطلاعات و گزارش پر اور ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر کچھ حقائق حکومت وقت کے علم میں لانا چاہتا ہوں!!!
سیکٹر G-6،G-7، وغیرہ اسلام آباد کے سب سے پرانے سیکٹرز ہیں، ان میں سیکٹر G-6 کو ایک عارضی کیمپ کے طور پر اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ دارالحکومت نے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونا تھا، اس لیے جو ماسٹر پلان ایک یونانی کمپنی نے حکومت کے مشورے سے تیار کیا تھا اس میں باقاعدہ طور پر تعمیر کیا گیا تھا کہ تعمیر کے عرصہ 20برس بعد ان مکانات کے الاٹی انکے مالک ہونگے۔ یاد رہے کہ ان ابتدائی مکانات کی تعمیر میں ٹیکسلا کی بجری یا لارنس پور کی ریت استعمال نہ ہوئی تھی بلکہ سواں کی مٹی نما ریت اور ندی ہی کی گول پتھروں پر مشتمل بجری استعمال ہوئی تھی، اس لیے یہ تعمیر ایک عارضی تعمیر تھی۔ اس ضمن میں G-6 ایکشن کمیٹی نے جو کاغذات مجھے فراہم کیے اسکے مطابق!! تعمیر کے بیس برس بعد پاکستان کے صدر ضیا ء الحق شہید نے محکمہ سی ڈی اے کے چئیرمین کو کہا تھا کہ ابتدائی مکانات کا ایک ورکنگ تیار کر کے حکومت کو دیا جائے تو اس وقت کے چئیرمین جناب علی نواز گردیزی مرحوم نے ان مکانات کی قیمتوں و رقبہ وغیرہ کی ایک مکمل رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی اسکے بعد یہ مسئلہ مختلف اوقات میں اور تقریباََ پندرہ سمریوں کی صورت میں وفاقی کیبنیٹ میٹنگ میں بھی جاتا رہا۔ سینیٹ آف پاکستان نے بھی متفقہ قرارداد منظور کی کہ یہ چھوٹے کوارٹرز چھوٹے اور غریب ملازمین کو مالکانہ حقوق پر دے دیے جائیں۔ ایک وزیر تعمیرات نے اپنی پریس کانفرنس اور رات نو بجے کے خبرنامے میں مالکانہ حقوق دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ ہر بڑی جماعت نے ہر الیکشن میں مالکانہ حقوق دینے کی بات کو اپنے الیکشن منشور میں بھی شامل کیا!!! اسی دوران جب ملک کے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف تھے، انہوں نے ذاتی طور پر ان سیکٹرز میں جا کر دیکھا اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جناب حاجی نواز کھوکھر مرحوم کی ایک چٹھی پر اپنے ہاتھ سے لکھا کہ یہ مکانات مالکانہ حقوق پر دیے جائیں یہاں تک کہ !! الاٹیوں کے ایک بڑے جلسے میں جا کر وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے مکانات کی چابیاں دینے کا اعلان بھی کیا۔ غرضیکہ ہر حکومت و ہر سیاسی جماعت اس بارے میں وعدے و اعلان کرتی رہی۔ چھوٹے سرکاری ملازم جو اپنے سے سنئیر افسر تک کی بات کو قانون سمجھتے ہیں، ان ملازمین کو جب ہر پارٹی ، ہر حکومت و ہر صدر و وزیراعظم نے یہ یقین دلا دیا کہ اب آپ الاٹی نہیں مالک ہیں تو ان غریب ملازمین نے ان بوسیدہ مکانات کو درست و مرمت وغیرہ کرنے کیلئے جو ہو سکا وہ کیا۔ مثلاََ کسی نے اپنا زیور بیچا، کسی نے اپنی آبائی زمین و مکان بیچا، کسی نے پلاٹ بیچا اور تمام جمع پونجی لگا کر ان چھوٹے کوارٹرز کو حسب ضرورت قابل استعمال بنا لیا۔
پھر جب وقت بدلا تو سیاسیوں و حکمرانوں نے اس بات پر توجہ مرکوز کر لی کہ ان مکانات کو گرا کر انکے پلاٹ بنا کر آپس میں تقسیم کر لیے جائیں۔ کسی نے یہ کوشش کر دی کہ یہ مکانات پرانے الاٹیوں سے واپس لیکر کروڑوں کی رشوت لیکر نئے الاٹیوں کو دے دیے جائیں اور یہ کوشش اب دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ موقف یہ اپنایا گیا ہے کہ مکانات میں جو اضافی تعمیر ہوئی ہے انہیں دو ہفتوں میں گرا دیا جائے ورنہ الاٹمنٹ کینسل کر دی جائیگی، جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ایک غریب ملازم جو شام چھ بجے ڈیوٹی سے گھر واپس آتا ہے وہ دو ہفتے تو کیا دو سال میں بھی پختہ تعمیر نہیں گرا سکتا۔ لہٰذا یہ مکانات خالی کروا کر کروڑوں کے عوض دوسروں کو الاٹ کر دیے جائینگے!! اس غیر یقینی حالت میں ایک منسٹر نے یہ احکامات کیوں جاری کیے؟ یہ کوئی سازش ہے یا انتقام؟ اس پر لوگوں میں بحث جاری ہے جس نے جلد ہی سوشل میڈیا کی زینت بھی بن جانا ہے۔ بقول آبادی سازش اسطرح ہے کہ حکومت نے اندر متفقہ یا انفرادی طور پر ایسے کام ہو رہے ہیں جو عوام و ملک کے مفاد میں نہیں ہیں، لیکن کیے اس لیے جا رہے ہیںکہ اسلام آباد میں بھی بے چینی و بد امنی پیدا ہو جائے، تا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ فوج کیخلاف ہو جائیں اس لیے کہ حکومت خود اعتراف کر رہی ہے کہ اسے عوام نہیں فوج لائی ہے۔ لہٰذا حکومت کے ذریعے جو کام ہوتا ہے وہ فوج کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اسطرح بظاہر یہ ایک سازش لگتی ہے جو یقینا پاکستان کے دوستوں کی تیار کردہ ہر گز نہیں ہو سکتی۔ انتقام کا عنصر اسطرح موجود ہے کہ اسلام آباد کے عوام نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ان جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا جو اب حکومت میں ہیں۔ لہٰذا وہ ووٹ نہ دینے پر انتقام لینے کیلئے لوگوں پر اس طرح کے عذاب مسلط کر رہی ہیں۔ لہٰذا با اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ جب پہلے ہی مہنگائی نے عوام کی زندگی عذاب کر رکھی ہے ایسے میں ایسے فیصلے بھی ہر گز نہ لیے جائیں جن کا قوم و ملک کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ جن سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا ہو اور عوام کے دلوں میں موجود اداروں کیلئے جو نفرت ہے اس میں مزید اضافہ ہو۔ اگر ایسا کرنے سے باز نہ آیا گیا تو ذمہ داروں کو میڈیا و قوم کے سامنے چند سوالوں کیلئے جوابدہ ہونا پڑیگا، ہو سکتا ہے کہ یہ سوال عدالتوں و اسمبلیوں میں بھی اٹھائے جائیں، انکے لیے جلسے جلوس بھی منعقد ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اسلام آباد میں ہونیوالی کسی بھی حکومت مخالف کاروائی کے میزبان ہی یہ غریب ملازمین ہوں جن کی زندگی یہ کہہ کر عذاب بنا دی گئی ہے کہ اب انکی چھت بھی محفوظ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مکانات میں اضافی تعمیر غیر قانونی عمل ہے اس سے پاکستان کی معیشت پر برا اثر پڑتا ہے، ملک بد امنی کا شکار ہوا ہے یا دیگر کوئی بھی قومی نقصان ہوا ہے تو اسے ہوتے وقت روکا کیوں نہیں گیا؟ مکانات راتوں رات تو نہیں بن جاتے، غریب آدمی کو ایک کمرہ بنانے کیلئے سال لگ جاتا ہے تو جب اس پر تعمیرات ہو رہی تھی، کیوں ہونے دی گئی؟ جس حکومتی مشینری کو مکان بن جانے کا تو علم ہو گیا اور وہ مکانات گرانے پر تیار ہو گئی۔ اس حکومت و حکومتی مشینری کو مکانات بنانے کا علم کیوں نہیں ہوا؟ اگر یہ غیر قانونی کام تھا تو ہائوسنگ منسٹری، اسٹیٹ آفس، سی ڈی اے و دیگر ذمہ دار ادارے خاموشی سے دیکھتے رہے اور غیرقانونی تعمیر ہوتی رہی، کیوں؟ ایسا ہونے کیوں دیا گیا؟ غیر قانونی کام کرنیوالے اگر گناہگار ہیں تو وہ گناہگار کیوں نہیں
جن کا کام ، غلط کام کرنے سے ہر کسی کو روکنا ہے؟ اس قسم کے دیگر کئی سوالات کا حکومت کو عدالتوں میں، جلسے جلوسوں اور اسمبلی میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جسکی جوابدہی مشکل ہوگی۔ آخری گزارش یہ ہے کہ حکومتی سیاست ایسے کاموں سے اجتناب کرے جن سے عوام کے دلوں میں اداروں کیخلاف موجود نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہو اس لیے کہ یہ کام و ملک کے نہیں، ملک کے دشمنوں کے مفاد میں ہے اور عوام سے گزارش ہے کہ وہ ہر برے کام کو اداروں کے کھاتے میں نہ ڈالیں بلکہ انکو پکڑیں جو انکے مصائب و مشکلات پیدا کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور اداروں سے گزارش ہے کہ وہ خود بھی ایسے کام کرنیوالے حکومتی افراد پر نگاہ رکھیں جو کرتے تو خود ہیں لیکن ذمہ داری اداروں پر ڈال دیتے ہیں اس لیے کہ عوام اور قومی اداروں میں پائی جانیوالی دوریاں کسی بھی صورت میں قوم و ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button